متھرا: ہندو عقیدے سے وابستہ گنگا ندی کی معاون ندی جمنا کو چار دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اس کے پانی کو شفاف پانے کی کوششیں ابھی تک کارگر ثابت نہیں ہوسکی ہیں۔ جمنا ندی کی دھارا کو صاف بنانے کے لئے تحریکیں چلائی گئیں۔ بیان بازی ہوئی یہاں تک کی عدالت کا بھی دروازہ کھٹکھٹایا گیا لیکن نتائج صفر رہے۔ اور مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ جمنا کی گندی کی وجہ دہلی، ہریانہ اور یوپی تھے لیکن اس کا حل صرف یوپی میں تلاش کیا جاتا رہا۔ اس مہم میں دہلی اور ہریانہ کو شامل کرنے کے لئے متھرا کی ایم پی ہیما مالنی نے اب پہل کرنے کا عزم کیا ہے۔ وہ نہ صرف دہلی اور ہریانہ کے وزرائے اعلی سے ملیں گی بلکہ یہ بھی بتائیں گی کی متھرا میں اس مسئلے کا حل کس طرح سے کیا جا رہا ہے۔ادھر معروف ماحولیات دوست ایم سی مہتا نے اب سپریم کورٹ میں ایک مفاد عامہ کی عرضی فائل کی ہے۔ انہیں امید ہے کہ اس پر عدالتی آرڈر کے بعد حالات میں کچھ تبدیلی آسکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی تک جو بھی کوششیں ہوئی ان کا نتیجہ اچھا نہیں ملا ہے۔ افسوس تو ہے کہ جب جمنا کی حالت دیکھنے کےلئے وی وی آئی پی آتا ہے تو نالے بھی روک دئیے جاتے ہیں اور ندی میں اوپر سے پانی بھی چھوڑ دیا جاتا ہے لیکن بعد میں صورتحال پہلے کی طرح ہو جاتی ہے۔
میونسپل کمشنر انونے جھا نے بتایا کہ متھرا میں کل 36 نالے سیدھے جمنا میں گرتے ہیں، جن میں سے 31 پر پہلے ٹیپ کیا جا چکا ہے۔ باقی پانچ کے لیے ٹینڈرز ہو چکے ہیں اور جلد ہی کام شروع ہو جائے گا۔ اس کے بعد نالے کے پانی کا ایک قطرہ بھی جمنا میں نہیں جانے دیا جائے گا۔ درحقیقت چار دہائی قبل متھرا میں نالے جمنا میں گرتے تھے، لیکن ان نالوں میں فیکٹریوں کا فضلہ نہیں آتا تھا۔ جمنا میں کچھوؤں اور مچھلیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی جس کی وجہ سے مچھلی اور کچھوے قدرتی طور پر جمنا کو صاف رکھتے تھے۔
1980 کی دہائی سے جمنا سے کچھوے اور مچھلیاں رات کے وقت چوری۔چھپے پکڑی جانے لگیں اور ان کی بنگلہ دیش اسمگلنگ شروع ہو گئی اور آج جمنا سے کچھوے ناپید ہو چکے ہیں۔ متھرا میں، جمنا کو ‘موکش پرداینی’ کہا جاتا ہے، اسی لیے یہاں سال بھر آنے والے کروڑوں عقیدت مند یمنا میں نہاتے/عقیدت کی ڈبکی لگاتے ہیں۔ گجرات سے آنے والے لوگ یمنا کے پانی کو لوٹی میں بند کرکے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور جب لوٹی کھولی جاتی ہے تو ایک مذہبی تقریب منعقد کی جاتی ہے۔
جمنا کی اس حالت زار کو دیکھ کر ہندو رہنما گوپیشور ناتھ چترویدی نے 1998 میں الہ آباد ہائی کورٹ میں جسٹس گرددھر مالویہ اور جسٹس کے ڈی شاہی کی بنچ میں مفاد عامہ کی عرضی دائر کی۔ بنچ نے نہ صرف جمنا میں گرنے والے نالوں پر اعتراض کیا اور انہیں روکنے کو کہا، بلکہ کٹی گھر کو دوسری جگہ منتقل کرنے، فیکٹریوں کے فضلے کو جمنا میں گرنے سے روکنے جیسے احکامات ہی نہیں دیئے ساتھ ہی اے ڈی گری کو اس کی نگرانی کا حکم دیا۔ 101 کیوسک پانی اوکھلا سے جمان میں روزانہ ڈالنے کا بھی حکم دیا گیا۔
تقریباً ایک دہائی تک اس کا کچھ اثر دکھائی دیا اور اہلکار بھی مستعد ہو گئے اور پہلے مرحلے میں نالوں کو ٹیپ کرنے کا دس سالہ منصوبہ بنایا گیا اور کام ہوا۔ بعد میں 25 سال کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے، نالوں کو ٹیپ کرنے کا کام شروع ہوا، لیکن چونکہ دہلی اور ہریانہ کا کچرا متھرا آتا رہا، اس لیے جمنا مزید آلودہ ہوتی گئی۔ آج جمنا محض ایک نالہ ک شکل اختیار کر کے رہ گئی ہے۔ورنداون سے کونسلر رادھے پاٹھک کا کہنا ہے کہ اس وقت کی مرکزی وزیر اوما بھارتی نے جمنا کو صاف کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن اس وقت کی ایس پی حکومت نے یہ منصوبہ مرکز کو نہیں بھیجا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں۔ سماجی کارکن نارائن تیواری کا کہنا ہے کہ اگر دہلی اور ہریانہ کے نالوں کے پانی کو صاف کرکے نہروں میں ڈالا جائے تو یہ پانی زراعت کے لیے ایک تحفہ ثابت ہوسکتا ہے اور جمنا کو بھی صاف کیا جاسکتا ہے۔ مجموعی طور پر جمنا آج متھرا کے مقدس وشرام گھاٹ پر دہلی، ہریانہ اور جزوی طور سے متھرا کا نالہ بن کر رہ گئی ہے۔