نئی دہلی: دہلی وقف بورڈ کے تحت آنے والی مسجدوں کے ائمہ کرام اور موذنین نے 14 مہینے سے نہ ملنے والی تنخواہوں کے لیے دہلی وقف بورڈ کے دفتر کے باہر ایک مرتبہ پھر سے احتجاجی مظاہرہ کیا اور دفتر کے باہر صفیں بچھا کر بیٹھ گئے ہیں۔ اپنے آپ کو ایماندار حکومت کہنے والی عام آدمی پارٹی اور اس کے تمام لیڈران و کارکنان اماموں کی تنخواہوں کے مسئلے پر آنکھوں پر پٹی باندھ کر بیٹھ گئے ہیں۔
آج احتجاج کے دوران اماموں کے ہاتھ میں نعرے والے پوسٹر بھی موجود تھے جس پر لکھا تھا ’تنخواہ دو نہیں تو استعفیٰ دو‘۔ اماموں کا الزام ہے کہ ہر بار ہمیں یہ کہہ کر بہلا پھسلا کر واپس بھیج دیا جاتا ہے کہ تنخواہ آ جائے گی، لیکن تنخواہ نہیں آتی۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے امام غیور حسن نے کہا کہ ہمارا مطالبہ صرف تنخواہ کا ہے جو پوری طرح سے جائز ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کئی بار دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین امانت اللہ خان سے بات کی ہے، وہ ہر بار یہی کہتے ہیں کہ بورڈ کے ممبران میں اتفاق نہیں ہو رہا ہے جس کی وجہ سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو پا رہا۔ جبکہ کسی بھی ادارے کے چیئرمین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے ممبران کے ساتھ تال میل بنائے رکھے، اگر وہ اس کام میں ناکام ہوتا ہے تو وہ نا اہل ہے۔
غیور حسن کا کہنا ہے کہ مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے اور ہمیں اپنا گھر چلانا مشکل ہو رہا ہے، لیکن ان کو کوئی احساس نہیں ہے۔ رمضان گزر گیا، عید چلی گئی، اسی طرح مہینے در مہینے گزرتے جا رہے ہیں۔ تاہم ہمیں اب بھی کوئی امید کی کرن نظر نہیں آ رہی۔
مسجد سرائے احمد پائی فتح پوری کے امام محمد مرتضیٰ نے اپنے حالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں لوگوں کا قرض دار ہو چکا ہوں۔ جن لوگوں سے میں نے اُدھار پیسہ لیا تھا انھوں نے اب مانگنا شروع کر دیا ہے۔ ہم اماموں کو کھانے پینے کیلئے بھی لوگوں سے قرض لینا پڑ رہا ہے، جبکہ امام کو ایک رہنما تسلیم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس آدمی کو 14 مہینے سے تنخواہ نہ ملی ہو اور آگے بھی ملنے کا امکان نہ ہو تو اس کے حالات کیسے ہوں گے، اس بات کا اندازہ ایک ناخوانده شخص بھی لگا سکتا ہے۔ لیکن افسوس حکومت میں بیٹھے لوگ خاموش رہ کر تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال اور دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین امانت اللہ خان جلد از جلد اماموں و موذنین کی تنخواہ جاری کریں، ان کی دعاء لیں اور بد دعاء سے بچیں۔
پہاڑ گنج قاضی والی مسجد کے مؤذن نفیس الدین نے اپنا درد بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہم پچھلے 14 ماہ سے تنخواہ سے پوری طرح محروم ہیں، جبکہ وقف ملازم کو تنخواہ برابر مِل رہی ہے۔ صرف اماموں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔ مسجد طبیہ کالج حکیم اجمل خان روڈ قرول باغ کے امام مشرف علی نے وزیرِ اعلیٰ اروند کجریوال سے مطالبہ کیا کہ وقف چیئرمین کو ہٹایا جائے، کیونکہ نہ تو یہ اماموں کو تنخواہ دے پا رہے ہیں اور نہ ہی بیواؤں کو وظیفہ، اور نہ ہی وقف املاک کی حفاظت کر پا رہے ہیں۔ انہوں نے اماموں کو بھکاری بنا دیا ہے۔ ہم نے رمضان میں سحری و افطار کیلئے لوگوں سے قرض لیا اور اپنے بچوں کی کفالت کیلئے لوگوں سے منّت کر کے پیسے مانگے، لیکن ان لوگوں کو ہمارے اوپر ذرا بھی ترس نہیں آیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی ہم رو رو کر اپنی تنخواہ مانگ رہے ہیں۔
اماموں نے کہا کہ بی جے پی کی بھی حکومت رہی ہے، کانگریس کی بھی حکومت آئی ہے، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ تنخواہ رکی ہو۔ پیر کے روز صبح سے شروع ہوا احتجاج شام 4 بجے تک جاری رہا۔ اماموں نے بتایا کہ دفتر سے یہ کہہ دیا گیا ہے کہ ابھی آپ کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ حالانکہ اماموں کا کہنا ہے کہ جب تک تنخواه نہیں مل جاتی روزانہ وقف بورڈ کے دفتر کے باہر احتجاج کرتے رہیں گے۔ پیر کے روز جمع ہوئے اماموں کا کہنا ہے کہ وہ اپنا احتجاج درج کرانے کے لیے منگل کے روز پھر سے جمع ہوں گے۔
واضح رہے کہ دہلی وقف بورڈ کے تحت آنے والی مساجد میں تقریبا 280 ائمہ کرام اور موذنین شامل ہیں۔ امام کو 18 ہزار روپے اور موذن کو 16 ہزار روپے تنخواہ دی جاتی ہے۔ اسی تنخواہ سے ائمہ کرام اپنا گھر اور سارے اخراجات پورے کرتے ہیں۔ تنخواہ کے تعلق سے دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین امانت اللہ خان سے بات کرنے کی کوشش کی گئی لیکن رابطہ نہیں ہو سکا۔