عالمی یوم ماحولیات پر اپنی ایک رپورٹ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں خصوصاﹰ پاکستانی شہری بلند درجہ حرارت سے محفوظ رہنے سے متعلق سہولیات سے محروم ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق اس ملک میں ہیٹ اسٹروک، سانس لینے میں دشواری اور بے ہوشی کی وجہ سے ماضی کے مقابلے میں زیادہ افراد ایمرجنسی وارڈز میں منتقل کیے جا رہے ہیں۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید موسمی حالات اب کثرت کے ساتھ رونما ہوں گے۔ گزشتہ برس پاکستان میں موسم بہار شدید گرمی کی لہر کے ساتھ دیکھا گیا، جہاں جیک آباد میں گزشتہ برس مئی میں درجہ حرارت اکیاون درجے سینٹی گریڈ تک ریکارڈ کیا گیا۔
پاکستان میں گزشتہ برس شدید بارشوں کے بعد تباہ کن سیلابوں کی وجہ سے ملک کا ایک تہائی حصہ زیرآب آ گیا تھا، جس کی وجہ سے کروڑوں انسان، مویشی اور زرعی زمینیں متاثر ہوئیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق کم آمدن والے افراد زدید گرمی کے دنوں میں بھی کھلے آسمان تلے کام پر مجبور ہیں اور یہی افراد ماحولیاتی تبدیلیوں سے تحفظ کی سب سے کم استطاعت رکھتے ہیں۔
ایمسنٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں چالیس ملین سے زائد افراد بجلی سے محروم ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں ائیرکنڈیشنر یا پنکھے تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جنوبی ایشیا خطے کی علاقائی نائب ڈائریکٹر دینُشکا دیسانائیکے نے خبردار کیا ہے کہ غریب افراد بڑھتے درجہ حرارت اور گرمی سے زیادہ متاثر ہوتے رہیں گے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکومت پاکستان سے کہا ہے کہ وہ مختلف شہروں میں کم زور طبقوں اور برداریوں کو شدید گرمی سے محفوظ بنانے کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار کرے۔ اس عالمی تنظیم نے امیر اقوام سے بھی استدعا کی ہے کہ وہ کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی لائیں اور پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے تحفظ کے لیے مدد فراہم کریں۔
واضح رہے کہ پاکستان گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے حوالے سے بہت پیچھے ہے، تاہم ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی فہرست میں یہ سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔