نوح: میوات میں ہوے تشدد کی آڑ میں فرقہ پرستوں کی انتہائی اہم کوشش ناکام ہوگئی ہے۔ علاقہ کی جاٹ برادری نے تشدد سے خود کو علیحدہ کرتے ہوئے کہا کہ میواتی ان کے بھائی ہیں اور وہ ان کے خلاف تشدد پر آمادہ نہیں ہوں گے۔ امر اجالا کی ایک رپورٹ کے مطابق جاٹوں کے اس اقدام کو کھاپ پنچایتوں کی بھی حمایت حاصل ہو رہی ہے۔سوشل میڈیا پر بھی جاٹوں کو مشتعل کرنے کے لیے کئی طرح کے پیغامات لکھے گئے مگر اس برادری نے تشدد سے خود کو الگ رکھا۔ رپورٹ کے مطابق جاٹ مہاسبھا کے سکریٹری یودھ ویر سنگھ نے کہا کہ جاٹ برادری سیکولر ہے اور وہ کسی بھی غلط بات کی حمایت نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا ’’حکومت نے اگر بروقت کارروائی کی ہوتی تو میوات کے تشدد کو ٹالا جا سکتا تھا۔ حکومت نے سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز ویڈیو ڈالنے والے مونو مانیسر کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیا گیا؟‘‘ سیاسی ماہرین کو کہنا ہے کہ جاٹوں کے اس اقدام کا بی جے پی کو نقصان ہوگا۔
خیال رہے کہ جاٹ برادری نے اب تک بی جے پی کا ساتھ دیا تھا اور 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں پارٹی نے یہاں کی تمام 10 سیٹوں پر جیت حاصل کی۔ تاہم کسان تحریک کے دوران جاٹ برادری پر جس طرح سے الزامات عائد کیے گئے اس سے وہ دلبرداشتہ ہیں۔ اس کے بعد جب جنتر منتر پر خاتون پہلوانوں نے احتجاج کیا اس وقت بھی جاٹ برادری کو نشانہ بنایا گیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر بلواسطہ اور براہ راست میوات میں ہندوؤں کا ساتھ دینے کےک پیغامات اور بجرنگ دل کی مدد کی اپیل کے باؤجود جاٹوں نے ان کا ساتھ دینے سے صاف انکار کر دیا۔
دریں اثنا، ہریانہ کے نائب وزیر اعلیٰ دشینت چوٹالہ اور گروگرام سے لوک سبھا کے رکن پارلیمنٹ راؤ اندرجیت نے بھی غیر متوقع طور پر ہندو تنظیموں کی برج منڈل یاترا پر ہی سوال اٹھا کر نفرت کی سیاست کی ہوا نکال دی۔ دشینت چوٹالہ نے کہا کہ نوح میں یاترا کے منتظمین نے انتظامیہ کو یہ اطلاع نہیں دی کہ اس میں کتنی تعداد میں لوگ شامل ہوں گے۔ جبکہ راؤ اندرجیت نے کہا کہ اس طرح کی یاترا میں ہتھیار لے کر کون جاتا ہے؟ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایک برادری نے اشتعال انگیز حرکتیں کی ہیں۔