ہندوستان میں آٹے کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ نے عوام کی روزمرہ کی زندگی پر اثر ڈالا ہے۔ آٹا جو کہ کھانے کی روزمرہ کی ضرورت ہے، اب 15 سال کے سب سے بلند سطح پر پہنچ چکا ہے، جس سے عوام کی مالی حالت پر دباؤ پڑا ہے۔
کی رپورٹ کے مطابق، دیہی علاقوں میں آٹے کی قیمتوں میں اضافے کا اثر زیادہ محسوس ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ سے نہ صرف گھریلو خرچوں میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ایف ایم سی جی سیکٹر کی ترقی بھی سست پڑ گئی ہے۔
دیہی علاقوں میں اس سیکٹر کی ترقی 4 فیصد تک محدود ہو گئی ہے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں کم ہے۔ شہری علاقوں میں بھی اس کا اثر نظر آ رہا ہے، جہاں ایف ایم سی جی کی ترقی 4.5 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
دسمبر 2024 تک آٹے کی قیمتیں 40 روپے فی کلوگرام تک پہنچ چکی ہیں، جو جنوری 2009 کے بعد سب سے زیادہ ہیں۔ آٹے کی قیمتوں میں اضافے کا اثر کھانے پینے کی اشیاء کی مہنگائی پر پڑ رہا ہے اور حکومت کی طرف سے مہنگائی پر قابو پانے کی کوششوں کو ایک بڑا جھٹکا لگا ہے۔
اس کے علاوہ، آٹے کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہونے کا امکان ہے کیونکہ گندم کی پیداوار کم ہوئی ہے، جس کی وجہ سے حکومت کے پاس گندم کا اسٹاک کم ہو گیا ہے اور طلب میں اضافے سے قیمتوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
ایف ایم سی جی کمپنیاں بھی مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خام مال کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے انہیں اپنے مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ شہری علاقوں میں خوراک کی مہنگائی 11.1 فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے جو پچھلے 15 مہینوں میں سب سے زیادہ ہے۔
مہنگائی کے بڑھتے اثرات کو دیکھتے ہوئے، اگلے چند مہینوں میں ایف ایم سی جی کمپنیاں مزید قیمتیں بڑھا سکتی ہیں۔ اس مہنگائی کی وجہ سے شہری علاقوں میں ہر گھر کا خرچ گزشتہ دو سالوں میں 13 فیصد بڑھ چکا ہے۔ مجموعی طور پر، ملک بھر میں خوراک کی مہنگائی نے ایف ایم سی جی سیکٹر پر گہرے اثرات ڈالے ہیں اور مہنگائی کا دباؤ طویل عرصے تک برقرار رہنے کا امکان ہے۔