ضلع اترکاشی میں ایک ہندو لڑکی کے اغوا کی مبینہ کوشش کے واقعے کے بعد سے اس علاقے میں فرقہ وارانہ تناؤ ہے۔ ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ حالات قابو میں ہیں اور پولیس الرٹ پر ہے۔ لیکن مسلمانوں کو دکانیں خالی کر دینے کی دھمکی والے پوسٹر چپکانے والوں کو اب تک گرفتار نہیں کیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ پوسٹر ہٹا دیا گیا ہے اور معاملے کی چھان بین جاری رہی ہے۔
اس دوران سماجی انصاف کے لیے سرگرم 200 سے زائد تنظیموں نے بھارتی صدر کو ایک میمورنڈم بھیجا ہے، جس میں اتراکھنڈ میں مسلمانوں کے خلاف ‘نفرت آمیز‘ مہم میں ریاستی حکومت کے مبینہ کردار کی مذمت اور لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کے لیے فوری ٹھوس اقدامات کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔
اتراکھنڈ صوبے میں ضلع اترکاشی کے پورولا قصبے کی مرکزی مارکیٹ میں گزشتہ دنوں مسلم تاجروں کی دکانوں پر دھمکی آمیز پوسٹر چسپاں نظرآئے۔ ‘دیو بھومی رکشا ابھیان‘ نامی ایک تنظیم کی طرف سے لگائے گئے ان پوسٹروں پر لکھا تھا، ”لو جہادیوں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ 15جون 2023ء کو ہونے والی مہا پنچایت سے پہلے اپنی دکانیں خالی کر دیں۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو پھر فیصلہ وقت کرے گا۔‘‘
ہندو شدت پسند جماعت وشو ہندو پریشد کے رہنما ویریندر رانا کا کہنا تھا، ”مقامی ہندو چاہتے ہیں کہ امن اور سماجی خیر سگالی برقرار رکھنے کے لیے ایک مخصوص فرقے کے لوگ شہر چھوڑ دیں۔ وہ یہاں تجارت کرنے کے لیے آئے تھے لیکن اب ہندو لڑکیوں اور عورتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔‘‘ اس مارکیٹ میں تقریباً 700 دکانیں ہیں، جن میں سے لگ بھگ 40 مسلمانوں کی ہیں۔ اس واقعے سے دو روز قبل بھی دائیں بازو کی جماعتوں سے مبینہ تعلق رکھنے والے افراد نے مسلمانوں کی دکانوں اور گھروں پر حملے کیے تھے۔
دھمکی آمیز پوسٹروں کے بعد سے علاقے کے مسلمانوں میں خوف کا ماحول ہے۔ مسلم تاجروں نے پولیس اور انتظامیہ سے سکیورٹی فراہم کرنے کی اپیل کی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ شر پسندوں کو شناخت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اترکاشی ضلع کے پولیس سپرنٹنڈنٹ ارپن یدوونشی نے بتایا کہ پولیس فورس الرٹ پر ہے اور علاقے میں رات کے گشت میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔
اسی دوران سماجی کارکن تیستا سیتلواد کی ‘سٹیزنز فار جسٹس اینڈ پیس‘ نامی تنظیم سمیت 200 سے زائد تنظیموں نے بھارتی صدر دروپدی مرمو کو ایک خط لکھ کر مسلمانوں کے جان و مال کی حفاظت کے لیے فوراً ٹھوس انتظامات کیے جانے کی اپیل کی ہے۔