نئی دہلی: دہلی کی سابق عام آدمی پارٹی حکومت کے دو اہم چہرے، سابق نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا اور سابق وزیر تعمیرات عامہ ستیندر جین ایک بار پھر بڑی مشکل میں پھنس گئے ہیں۔ انسداد بدعنوانی شاخ (اے سی بی) نے ان دونوں کے خلاف تقریباً 2000 کروڑ روپے کے مبینہ "کلاس روم اسکینڈل” میں ایف آئی آر درج کر لی ہے۔ یہ گھوٹالا دہلی کے سرکاری اسکولوں میں 12,748 کلاس رومز اور عمارتوں کی تعمیر سے متعلق ہے، جس میں شدید مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
اے سی بی کے مطابق، ان کلاس رومز کو سیمی پرماننٹ اسٹرکچر (ایس پی ایس) کی شکل میں بنایا گیا، جس کی عمر محض 30 سال ہوتی ہے، مگر ان کی تعمیراتی لاگت اتنی ہی نکلی جتنی آر سی سی یعنی پکے ڈھانچے (75 سال عمر) کی ہوتی ہے۔ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ایس پی ایس کی لاگت فی مربع فٹ 2292 روپے تک پہنچی، جو کہ RCC کی اوسط لاگت 2044–2416 روپے فی مربع فٹ کے برابر تھی۔
اس منصوبے کا ٹھیکہ 34 مختلف ٹھیکے داروں کو دیا گیا، جن میں سے متعدد کے تعلقات عام آدمی پارٹی سے جوڑے جا رہے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ بغیر کسی نئے ٹینڈر کے ہی 326.25 کروڑ روپے کی اضافی لاگت منظور کر لی گئی، جن میں 205.45 کروڑ روپے صرف "رچر اسپیسفکیشن” کے نام پر خرچ کیے گئے۔ یہی نہیں، مشیروں اور معماروں کی تقرری بھی مقررہ عمل کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کی گئی۔
مرکزی ویجیلنس کمیشن (سی وی سی) نے بھی اس معاملے پر ایک رپورٹ تیار کی تھی، جس میں منصوبے میں کئی سنگین خامیوں کی نشاندہی کی گئی تھی، مگر یہ رپورٹ تقریباً تین سال تک دبا کر رکھی گئی۔ شکایت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان ہریش کھُرّانہ، ایم ایل اے کپل مشرا اور نِیل کنٹھ بکشے نے درج کرائی تھی۔
رپورٹس کے مطابق، ایک عام کلاس روم کی تعمیر پر تقریباً 5 لاکھ روپے لاگت آنی چاہیے تھی، لیکن اس منصوبے میں فی کلاس روم خرچ 24.86 لاکھ روپے تک پہنچ گیا، جو ایک انتہائی غیر معمولی اضافہ ہے۔
ایف آئی آر نمبر 31/2025 کو آئی پی سی کی دفعات 409 (سرکاری اعتماد میں خیانت)، 120-B (مجرمانہ سازش) اور بدعنوانی انسداد ایکٹ کی دفعہ 13(1) کے تحت درج کیا گیا ہے۔ یہ کارروائی بدعنوانی مخالف قانون کی دفعہ 17-اے کے تحت اجازت ملنے کے بعد عمل میں آئی۔
اے سی بی کے سربراہ مدھور ورما نے کہا ہے کہ اب ایک جامع تفتیش شروع کر دی گئی ہے، جس میں ان نامعلوم سرکاری افسران اور ٹھیکیداروں کی بھی تفتیش کی جائے گی جنہوں نے ممکنہ طور پر اس مبینہ بدعنوانی میں کردار ادا کیا۔ یہ اسکینڈل دہلی حکومت کے اس دعوے پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے جس کے تحت تعلیم کے شعبے میں انقلابی اصلاحات کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے۔