سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید نے آج دہلی اسمبلی انتخاب کے پیش نظر منعقد ایک پریس کانفرنس میں بی جے پی اور عآپ دونوں ہی پارٹیوں پر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے خاص طبقہ کو مدنظر رکھتے ہوئے پولرائزیشن کی سیاست کا الزام عائد کیا۔سلمان خورشید کا کہنا ہے کہ ’’گزشتہ 10 سالوں میں دیکھا گیا ہے کہ دہلی کے انتخاب میں ایک خاص طبقہ کو ووٹ بینک بنایا جاتا ہے۔ لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ایسا نہ کیا جائے۔ سیاسی پارٹیاں جو بھی کہیں، وہ کسی خاص طبقہ پر مرکوز نہ ہو، بلکہ اصولوں کی بات ہو، جسے سبھی لوگ قبول کریں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’دہلی اسمبلی انتخاب میں ہر پارٹی انتخابی تشہیر کر رہی ہے، لیکن یہ بھی دیکھنے والی بات ہے کہ دہلی پہلے کیسی تھی، اَب کیسی ہے اور کیسی ہونی چاہیے۔ بجلی، پانی، گھر، سڑک، سہولیات، خواتین و بچوں کی سیکورٹی وغیرہ موضوعات پر بات ہوتی اور اس طرح توجہ جاتی ہے۔ لیکن مزید ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انتخاب میں کسی خاص طبقہ کو ہدف بنا کر انھیں ووٹ بینک بنایا جاتا ہے، جبکہ سبھی سیاسی پارٹی کا ووٹ مانگنے کا اور ہر شہری کو ووٹ دینے کا حق جو جمہوریت میں ہمیں ملا ہے، اس میں کہیں نہ کہیں ایک طبقہ کے تئیں بدسلوکی ہوتی ہے اور انھیں ہدف بنایا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں سلمان خورشید نے خاص طور پر دہلی کے سابق وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو ہدف تنقید بنایا اور ان سے کچھ اہم سوالات پوچھے۔ مثلاً انھوں نے پوچھا کہ جہانگیر پور اور مشرقی دہلی میں جب فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے تو انھوں نے خاموشی کیوں اختیار کر لی تھی؟ بلقیس بانو معاملے پر اُس وقت منیش سسودیا نے کوئی بیان کیوں نہیں دیا؟ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف مظاہرہ کے دوران شاہین باغ کی خواتین کو مظاہرہ والی جگہ خالی کرنے کو کیوں کہا؟ کورونا وبا کے وقت نظام الدین مرکز پر انگلی اٹھائی گئی تو آپ کا رویہ کیا تھا؟ سلمان خورشید نے ان سوالات کے ساتھ ساتھ مزید کئی باتیں پریس کانفرنس میں رکھیں جو کہ اقلیتی طبقہ کے خلاف کیجریوال حکومت میں دیکھنے کو ملیں۔
اروند کیجریوال کے ذریعہ پجاریوں اور گرنتھیوں کے لیے 18 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دینے کے اعلان پر بھی سلمان خورشید نے اپنی بات رکھی۔ انھوں نے کہا کہ ’’پجاریوں اور گرنتھیوں کو 18 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دی جائے گی تو بودھ بھکشو، روی داس مندر اور والمیکی مندر کے پجاریوں کو کیوں نہیں؟ جبکہ دہلی میں 314 بدھ وِہار ہیں، 150 والمیکی مندر ہیں اور تقریباً اتنے ہی روی داس مندر ہیں۔ یہ سب بہوجن سماج سے تعلق رکھتے ہیں۔ کلیسا کے پادریوں کو بھی تنخواہ ملے۔‘‘ ساتھ ہی انھوں نے سوال کیا کہ عآپ نے 11 راجیہ سبھا رکن بنائے ہیں، ان میں ایک بھی دلت اور پسماندہ طبقہ کا کیوں نہیں؟ کیجریوال کو صرف دلتوں کے ووٹ چاہیے، ان کے تئیں انھیں کوئی ہمدردی نہیں ہے۔