بھوپال :مدھیہ پردیش کے کابینہ وزیر وجے شاہ ایک انتہائی قابل اعتراض اور توہین آمیز بیان کے سبب عدالتی کارروائی کی زد میں آ گئے ہیں۔ انہوں نے ایک عوامی اجتماع میں خاتون کرنل صوفیہ قریشی کا نام لیے بغیر ان کی خدمات کو ایک غیر مہذب انداز میں بیان کیا اور پاک دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کو ’ہم نے ان کی بہن بھیج کر ان کی ایسی تیسی کرا دی‘ جیسے الفاظ سے تعبیر کیا تھا۔
یہ بیان نہ صرف خاتون افسر کی توہین ہے بلکہ فوج جیسے ادارے کی پیشہ ورانہ وقار کو بھی مجروح کرتا ہے۔ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے اس بیان پر از خود نوٹس لیتے ہوئے ریاستی پولیس سربراہ کو چار گھنٹوں کے اندر ایف آئی آر درج کرنے کا سخت حکم جاری کیا تھا۔ جسٹس اتُل شری دھرن کی سربراہی میں ڈویژن بینچ نے واضح طور پر کہا کہ اس بیان میں قومی یکجہتی، آئینی اقدار اور خواتین کی حرمت کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
اس عدالتی حکم پر عمل کرتے ہوئے مہو تحصیل کے مان پور تھانے میں وجے شاہ کے خلاف بی این ایس کی دفعات 152، 196(1)(بی)، اور 197(1)(سی) کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ ان دفعات کے تحت سات سال تک قید، عمر قید یا جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔ خاص طور پر دفعہ 152 ملک کی سالمیت اور خودمختاری کے خلاف عمل کو سنگین جرم قرار دیتی ہے۔
معاملے کے طول پکڑنے پر وزیر وجے شاہ نے ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے معذرت بھی پیش کی۔ انہوں نے کہا، ’’میں خواب میں بھی کرنل صوفیہ کے خلاف کچھ نہیں سوچ سکتا، اگر جوش میں کچھ غلط کہہ گیا تو معذرت چاہتا ہوں۔‘‘ مگر ناقدین کے مطابق یہ معافی سیاسی دباؤ کے تحت دی گئی ہے اور اس سے بیان کی سنگینی کم نہیں ہو جاتی۔
دوسری جانب ریاستی حکومت نے بھی عدالتی حکم کے بعد حرکت میں آتے ہوئے وزیر کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا۔ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر موہن یادو کے دفتر نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ عدالت کے فیصلے پر مکمل عملدرآمد کیا جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ ایسے غیر ذمہ دارانہ اور توہین آمیز بیانات دینے والے شخص کو کیا وزارتی عہدے پر برقرار رہنا چاہیے؟ جب بات ملک کی فوج، خواتین اور آئینی اقدار کی ہو، تو صرف معافی کافی نہیں۔ ایسے رویوں کے خلاف سخت مثال قائم کرنا وقت کی ضرورت ہے تاکہ کوئی بھی عوامی نمائندہ آئندہ اس حد تک جانے کی جرات نہ کرے۔