امیر جماعت نے مزید کہا کہ ’’ ہم اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ وقف جائیدادیں مذہبی اوقاف ہیں ، ریاستی اثاثہ نہیں ۔ رہا یہ دعویٰ کہ ’’ مسلمانوں کو وقف ایکٹ کے تحت خصوصی حقوق حاصل ہیں ‘‘ سراسر غلط ہے۔ وقف ایکٹ 1995 اور 2013 میں مسلمانوں کو اوقاف کے حوالے سے ویسے ہی حقوق عطا کیے گئے تھے جیسے دیگر قوانین کے تحت دیگرمذہبی طبقات کو دیے گئے ہیں ۔ پارلیمانی بحث کے دوران پیش کیے گئے گمراہ کن دلائل پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے امیر جماعت نے کہا کہ وقف بورڈ کی نوعیت چیریٹی کمشنر کی طرح نہیں ہے جیسا کہ لوک سبھا کے بعض ارکان کے ذریعے دعویٰ کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید نشاندہی کی کہ متعدد ریاستوں میں ہندو اور سکھ اوقاف کے لیے خصوصی قوانین موجود ہیں۔
امیر جماعت نے مزید کہا کہ ’’ وقف بورڈ کی ساخت میں جبراً تبدیلی کرکے اس کے اراکین میں غیر مسلم افرادکو شامل کرنے کا فیصلہ، دراصل مسلم کمیونٹی سے ان کے مذہبی و فلاحی اثاثوں کا انتظامی حق چھیننے کے ارادے سے کیا گیا ہے۔ یہ ایکٹ سرکاری حکام کو وقف معاملوں میں مداخلت کرنے کا حق دیتا ہے، جس سے حکام کے لیے من مانے ڈھنگ سے وقف جائیدادوں پر قبضہ کرنے کا راستہ آسان ہو سکتا ہے جو کہ اوقاف کے وجود کے لیے خطرے کا باعث بنے گا۔ اس ترمیم کی وجہ سے سرکار، وقف جائیدادوں پر قبضہ کر سکتی ہے۔ اس بل کے ذریعہ مسلم کمیونٹی کو ان کے جائز ملکیتی اثاثوں سے محروم کرنے کا راستہ صاف کردیا گیا ہے جس کی زد میں متعدد عبادت گاہیں، اسکول ، کالج اور قبرستان آ جائیں گے۔ وقف بائے یوزر میں تبدیلی اور نئے اوقاف کے لیے سخت شرطوں کے اضافے سے صاف طور پر واضح ہوتا ہے کہ مسلم اداروں کو منظم طریقے پر کمزور کرنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے۔‘‘
جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے ان سیاسی پارٹیوں کے تئیں مایوسی اور تأسف کا اظہار کیا جو سیکولرزم اور غیر جانبداریت کا دعویٰ کرنے کے باوجود اس بل کی حمایت کرتی رہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپوزیشن لیڈروں، سیکولر طاقتوں اور قانونی ماہرین سے پُر زور اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس ایکٹ کو چیلنج کریں۔ یہ بل آئین کی دفعہ 14، 25، 26 اور 29 کے سراسر خلاف ہے۔ ہم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر مسلم تنظیموں کے ساتھ مل کر اس جابرانہ قانون کے خلاف ملک گیر احتجاج کی حمایت کریں گے اور اس غیر منصفانہ و غیر آئینی قانون کو ختم کرنے کے لیے تمام قانونی، آئینی اور جمہوری طریقے اپنائیں گے۔