نئی دہلی :سپریم کورٹ میں وقف قانون میں حالیہ ترامیم کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر جاری سماعت کے بعد سیاسی حلقوں میں بحث تیز ہو گئی ہے۔ عدالت نے جمعرات کو معاملے کی دوسری سماعت کے دوران مرکز کو سات دن میں جواب داخل کرنے کی مہلت دی ہے اور اس دوران کسی بھی نئی تقرری یا ڈینوٹفکیشن سے روک دیا ہے۔ اگلی سماعت 5 مئی کو طے ہے۔
سپریم کورٹ کی اس کارروائی پر عام آدمی پارٹی کے سینئر رہنما اور راجیہ سبھا رکن سنجے سنگھ نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وقف ترمیمی بل مکمل طور پر غیر آئینی ہے اور اسی مؤقف کو وہ پہلے بھی جے پی سی اور پارلیمنٹ میں اٹھا چکے ہیں۔
سنجے سنگھ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ پر لکھا، ’’وقف ترمیمی بل پوری طرح غیر آئینی ہے، یہی بات میں نے جے پی سی کے سامنے اور ایوان میں کہی تھی۔ سپریم کورٹ نے مرکز سے جو سوالات کیے ہیں، ان کا حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ ابھی بھی وقت ہے، مان لو کہ یہ ملک بابا صاحب کے لکھے ہوئے آئین سے چلے گا، کسی نریندر مودی کے فرمان سے نہیں۔
سنجے سنگھ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ مرکز کی مودی حکومت مذہبی اداروں کی جائیدادوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے تاکہ انہیں اپنے صنعتکار دوستوں کو سونپ کر فائدہ پہنچایا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "بی جے پی کو نہ آئین کی پرواہ ہے اور نہ ہی عدالتوں کی۔ سپریم کورٹ کی کارروائی سے ان کے ارادوں کو زک پہنچی ہے، اسی لیے اب ان کے حامی عدلیہ کو دباؤ میں لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔”
ایک اور پوسٹ میں انہوں نے الزام لگایا کہ "موڈی کے حامی اب سپریم کورٹ کو دھمکانے میں لگ گئے ہیں۔ بی جے پی نے کاشی میں تین سو سے زائد مندر توڑ کر وہ زمین اپنے دوستوں کو کاروباری مقاصد کے لیے دے دی۔”
سنجے سنگھ کا یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب ملک بھر میں وقف ترمیمی بل پر زبردست بحث جاری ہے۔ اپوزیشن جماعتیں اس بل کو مذہبی آزادی اور اقلیتی حقوق پر حملہ قرار دے رہی ہیں جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ ترامیم کا مقصد نظام کو شفاف اور موثر بنانا ہے۔
سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ سنجے سنگھ کا جارحانہ موقف نہ صرف عام آدمی پارٹی کے سیاسی بیانیے کو مضبوط کرتا ہے بلکہ یہ پورے معاملے کو عوامی سطح پر مزید حساس بنا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے حکومت کو دی گئی مہلت کے دوران سیاسی ماحول مزید گرم ہونے کا امکان ہے۔