نئی دہلی :اتر پردیش میں کانوڑیوں کے راستوں پر کھانے-پینے کی دکانوں و پھلوں کے اسٹالوں پر ’نیم پلیٹس‘ (نام کی تختی) لگانے سے متعلق یوگی حکومت کے حکم کی اپوزیشن تنظیموں نے زبردست تنقید کرتے ہوئے یوگی حکومت سے فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔کانگریس ترجمان سپریا شرینیت نے بھی اس فیصلے کے حوالے سے یوگی حکومت پر سخت نشانہ سادھا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جب ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا ہے اور ایسے میں نفرت کا تڑکا لگانا ہو تو یہ کام بی جے پی کو بہت اچھے سے آتا ہے۔
کانگریس ترجمان سپریا نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک غریب اسٹال والے کو حکم ہے کہ وہ اپنے نام کی تختی لگائے، جس سے کانوڑیے مسلمان پھل والوں سے کچھ خرید نہ لیں۔ کسی مسلمان کے ہوٹل میں کھانا نہ کھا لیں۔ جب بیٹھے بٹھائے کچھ سمجھ نہ آئے تو نفرت کا تڑکا لگانا بی جے پی کی عادت ہے۔ سپریا شرینیت بی جے پی سے یہ سوال بھی کرتی ہیں کہ کبھی جوڑنے کی بات کرو، کب تک توڑو گے؟ اس ملک نے اتنا بڑا پیغام دیا پھر بھی سمجھ نہیں آ رہی ہے؟ ایشور نہ کرے، لیکن اگر طبیعت بگڑ جائے اور مسلم ڈاکٹر سامنے ہو تو کیا کریں گے؟ اگر خون کی ضرورت پڑ جائے اور خون دینے والا مسلمان ہو تب کیا کریں گے؟ اور اگر نام ببلو، منا، پپو اور گڈو ہو تو کیا کریں گے؟
سپریا شرینیت نے سخت ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ یہ ان کانوڑیوں کے لیے کیا جا رہا ہے جو شیو راتری پر چڑھایا جانے والا ’جل‘ (پانی) لینے جائیں گے۔ یہ پھوہڑ اور ڈھونگی مذہب کے خود ساختہ ٹھیکیدار بھگوان شیو کو اور ان کی عظمت کو کب سمجھیں گے؟ کسی غریب کے پیٹ پر لات مارنے پر میرے بھگوان میرے مہادیو قطعاً خوش نہیں ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسلمانوں سے سامان نہ خریدنے کی اس سازش کو سمجھئے۔ یہ وہی جاہل ہیں جو ایودھیا ہارتے ہی وہاں کے ہندوؤں کے بائیکاٹ کی وکالت کرنے لگے تھے۔
اپنے ویڈیو پیغام میں کانگریس کی ترجمان نے سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے یہاں تک کہا ہے کہ غریبوں کا بائیکاٹ کرنے والی انتظامیہ اور بزدل حکومت صرف اور صرف اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے اس طرح کی نفرت پھیلاتے ہیں، لیکن میرا ملک محبت کا ملک ہے اور یہ نفرت کو بار بار ہرا دیتا ہے۔ نفرت کا بازار مت لگائیے، سیب عبدل بیچے یا انِل بس میٹھا ہونا چاہئے۔ آخر میں سپریا کہتی ہیں کہ ’’کتنا بھی زور لگائیے، جیت تو محبت کی ہی ہوگی۔