نئی دہلی :وقف ترمیمی قانون کے خلاف داخل کی جا رہی نئی عرضیوں پر سماعت سے سپریم کورٹ لگاتار انکار کر رہی ہے۔ گزشتہ 29 اپریل کو سپریم کورٹ نے وقف ترمیمی قانون کے آئینی جواز کو چیلنج پیش کرنے والی 13 عرضیوں پر غور کرنے سے انکار کیا تھا، اور آج پھر اس قانون کے خلاف داخل کچھ عرضیوں پر سماعت سے عدالت عظمیٰ نے صاف طور پر انکار کر دیا ہے۔ اس طرح عدالت نے ظاہر کر دیا ہے کہ وہ اس قانون کے خلاف داخل ہونے والی مزید کسی عرضی کو فی الحال منظور کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ آئندہ 5 مئی کو کچھ منتخب عرضیوں پر سماعت ہوگی-میڈیا رپورٹس کے مطابق چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشوناتھن کی رکنیت والی بنچ اس بات کا پختہ ارادہ رکھتی ہے کہ جن عرضیوں کا انتخاب اس معاملے میں سماعت کے لیے کیا گیا ہے، ان پر ہی غور کیا جائے گا۔
منتخب عرضیوں پر آئندہ 5 مئی کو سماعت مقرر ہے۔ سبھی کی نظریں 5 مئی پر مرکوز ہیں، کیونکہ مسلم طبقہ وقف قانون میں کی گئی ترمیم کو غیر آئینی تصور کرتا ہے۔بہرحال، گزشتہ 29 اپریل کو جب سپریم کورٹ نے وقف ترمیمی قانون کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی 13 عرضیوں پر سماعت سے انکار کیا تھا، تو بنچ نے کہا تھا کہ ’’ہم اب عرضیوں کی تعداد نہیں بڑھانے جا رہے۔ یہ بڑھتی رہیں گی اور اسے سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔‘‘ 17 اپریل کو بنچ نے اپنے سامنے موجود عرضیوں میں سے صرف 5 پر سماعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سماعت کے دوران مرکز نے بنچ کو یقین دلایا کہ وہ 5 مئی تک ’وقف بائی یوزر‘ سمیت وقف جائیداد کو نہ تو غیر نوٹیفائی کرے گا اور نہ ہی مرکزی وقف کونسل اور بورڈس میں کوئی تقرری ہوگی۔ وقف قانون کے خلاف تقریباً 72 عرضیاں داخل کی گئی ہیں۔ ان میں اے آئی ایم آئی ایم لیڈر اسدالدین اویسی، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمعیۃ علماء ہند، ڈی ایم کے اور کانگریس رکن پارلیمنٹ عمران پرتاپ گڑھی و محمد جاوید کی عرضیاں شامل ہیں۔