سیکورٹی کے سخت انتظامات کے باوجود جب ان کا قافلہ دارالعلوم کے احاطے میں داخل ہوا تو بڑی تعداد میں طلبہ نے سڑکوں پر کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا۔ بعض طلبہ نے پھولوں کی بارش کی جبکہ متعدد افراد ان کے ساتھ تصویریں لینے کی کوشش کرتے نظر آئے۔ دارالعلوم دیوبند کے میڈیا انچارج مولانا اشرف عثمانی کے مطابق ’’مولانا امیر خان متقی کے لیے ادارے کے اندر قیام و طعام کا انتظام کیا گیا۔ وہ ہمارے مہمان ہیں اور ان کے اعزاز میں ہم نے ہر ممکن سہولت فراہم کی۔‘
اس موقع پر جمعیۃ علما ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ’’افغانستان کے ساتھ ہندوستان کا قدیم تعلیمی و علمی رشتہ ہے۔ مولانا متقی اپنے مادرِ علمی سے ملاقات کے لیے آئے ہیں، یہ ہمارا دینی و علمی تعلق ہے۔‘‘ مولانا امیر خان متقی نے دارالعلوم کی لائبریری میں دارالعلوم کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی سے حدیث کا سبق پڑھا اور ان سے اجازتِ روایت حاصل کی۔ اس موقع پر انہیں ’حدیث کی سند‘ عطا کی گئی، جس کے بعد وہ اپنے نام کے ساتھ ’قاسمی‘ کا لقب استعمال کرنے کے حقدار بن گئے ہیں۔ چنانچہ اب وہ ’مولانا امیر خان متقی قاسمی‘ کہلائیں گے۔
سبق کے بعد وہ دارالعلوم کے مہمان خانے میں کچھ دیر آرام کے لیے گئے۔ دوپہر ڈھائی بجے ان کا طلبہ سے خطاب طے تھا، تاہم طلبہ کے ہجوم اور حفاظتی وجوہات کے باعث یہ پروگرام منسوخ کر دیا گیا۔ روانگی سے قبل مولانا متقی نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ان کے دورے کا مقصد ہندوستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی و سیاسی روابط کو مزید مضبوط بنانا ہے۔ انہوں نے کہا ’’ہم چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان آمد و رفت اور بات چیت میں اضافہ ہو۔