مہاراشٹر حکومت نے ریاست میں تھری لینگویج یعنی سہ لثانی پالیسی کے تحت ہندی زبان کو تیسری لازمی زبان قرار دینے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔ اس فیصلے کے خلاف سیاسی جماعتوں، سماجی تنظیموں اور عوام کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے کو ملا، جس کے بعد ریاستی کابینہ کی میٹنگ میں وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس نے اس پالیسی سے متعلق دونوں سرکاری احکامات (جی آرز) کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔حزبِ اختلاف نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ مراٹھی شناخت کو نظر انداز کر کے ہندی زبان کو تھوپنے کی کوشش کر رہی ہے، جو کہ مہاراشٹر کی لسانی ہم آہنگی اور ثقافتی توازن کے لیے خطرناک ہے۔
خصوصاً مہاراشٹر نونرمان سینا (ایم این ایس) کے سربراہ راج ٹھاکرے نے اس پالیسی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور ریاستی حکومت پر دہلی سے زبردستی ہندی نافذ کرنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ مراٹھی زبان اور شناخت کے تحفظ کے لیے سڑکوں پر اتریں۔
راج ٹھاکرے نے اس فیصلے کی واپسی پر ردعمل دیتے ہوئے کہا، "یہ حکومت کی مہربانی نہیں بلکہ مراٹھی عوام کے غصے کا نتیجہ ہے جس نے ہندی کو تھوپنے کی کوشش کو ناکام بنایا۔‘‘ ان کے بقول، حکومت کو یہ فیصلہ پہلے ہی سمجھ لینا چاہیے تھا۔ ریاستی کانگریس، این سی پی (شرد پوار گروپ) اور شیو سینا (ادھو گروپ) نے بھی اس پالیسی کی مخالفت کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ قومی تعلیمی پالیسی کے نام پر مراٹھی زبان کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش قابلِ قبول نہیں۔
حکومت نے اپنی وضاحت میں کہا تھا کہ ابتدائی جماعتوں میں مراٹھی اور انگریزی کے ساتھ ہندی کو بطور تیسری زبان پڑھایا جائے گا۔ تاہم، بڑھتے احتجاج اور سیاسی دباؤ کے بعد وزیر اعلیٰ فڑنویس نے اعلان کیا کہ ڈاکٹر نریندر جادھو کی سربراہی میں ایک نئی کمیٹی بنائی گئی ہے جو سہ لثانی پالیسی کے طریقۂ نفاذ پر سفارشات دے گی اور تب تک پالیسی پر عمل درآمد روک دیا گیا ہے۔
فڑنویس نے کہا کہ حکومت نے مراٹھی زبان کو ہمیشہ مرکز میں رکھا ہے اور نئی تعلیمی زبان پالیسی بھی طلبہ اور مراٹھی سماج کے مفاد میں تشکیل دی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ابتدائی جماعتوں میں تیسری زبان کا نفاذ اب نہیں کیا جائے گا بلکہ اس پر نظرثانی کمیٹی کی رپورٹ کے بعد ہی کوئی حتمی قدم اٹھایا جائے گا۔