اتر پردیش کے باغپت ضلع میں جمعہ کے روز منعقد کھاپ پنچایت میں بچوں کے اسمارٹ فون استعمال کرنے پر پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ لباس سے متعلق بھی ایک سخت فیصلہ لیا گیا ہے۔ پنچایت میں شامل چودھری برج پال سنگھ سمیت دیگر کھاپ نمائندوں نے دعویٰ کیا کہ سماج میں بڑھتی برائی، ایم ایم ایس وائرل ہونے کے واقعات اور معاشقہ کے معاملے فکر کا باعث ہیں۔ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلہ لیا گیا ہے کہ بچوں کو اسمارٹ فون سے دور رکھا جائے گا۔ انھیں صرف ایسا فون استعمال کرنے کی اجازت ہوگی، جس سے بات کی جا سکے۔ اس کے ساتھ ہی لڑکے و لڑکیوں کے ہاف پینٹ جیسے کپڑوں کو غیر سماجی بتاتے ہوئے ان پر بھی پابندی لگانے کی بات کہی گئی ہے۔
کھاپ لیڈران کا کہنا ہے کہ یہ کوئی تاناشاہی فرمان نہیں، بلکہ سماج کے اصلاح کی مہم ہے۔ بچوں کو بیٹھا کر سمجھایا جائے گا، اخلاقیات و آداب کی تعلیم دی جائے گی اور والدین سے اپیل کی جائے گی کہ وہ اپنے بچوں پر خود سے ہی یہ اصول نافذ کریں۔ پنچایت میں کئی گاؤں کے چودھری اور معزز افراد موجود تھے، جنھوں نے آئندہ کی میٹنگوں کا منصوبہ بھی بنایا۔
کھاپ پنچایت کے ذریعہ فیصلہ تو سنا دیا گیا، اب اس کے خلاف آوازیں اٹھنی بھی شروع ہو گئی ہیں۔ تجربہ کار مؤرخ ڈاکٹر امت رائے جین نے ان فیصلوں کو سیدھے طور پر تغلقی فرمان قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ موبائل آج کے دور کی ضرورت ہے، نہ کہ عیاشی کا ذریعہ۔ تعلیم، تحقیق، آن لائن کلاس، سرکاری جانکاریاں اور تکنیکی ترقی… سب کچھ موبائل پر ہی منحصر ہے۔
کورونا وبا کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر امت نے کہا کہ موبائل نے ہی بچوں کی پڑھائی کو بچایا۔ ایسے میں موبائل پر پابندی لگانا فطری نہیں، بلکہ سماج کو پیچھے دھکیلنے جیسا ہے۔ لباس سے متعلق لیے گئے فیصلہ کو بھی انھوں نے ناقابل قبول قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ لباس پر کسی طرح کی پابندی عائد کرنا جمہوری سماج میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ فحاشت کپڑوں سے نہیں، سوچ سے پھیلتی ہے۔ انھوں نے مرکزی و ریاستی حکومتوں سے مطالبہ بھی کیا کہ اس طرح کے فرمان جاری کرنے والوں پر قانونی کارروائی ہونی چاہیے، تاکہ سماج میں غلط پیغام نہ جائے۔


















