نئی دہلی: جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خان نے 2 ستمبر 2025 کو سنائے گئے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے پر اپنی سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ 2020 کےدہلی فسادات سازش کیس کے سلسلے میں آیا ہے۔
میڈیا کے لیے جاری اپنے بیان میں جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خان نے کہا کہ ہائی کورٹ کی جانب سے عمر خالد، شرجیل امام اور دیگر کارکنان کی یو اے پی اے (Unlawful Activities Prevention Act) کے تحت ضمانت کی درخواستوں کو مسترد کیا جانا انتہائی افسوس ناک ہے۔ یہ نوجوان تقریباً پانچ برس سے جیل میں بند ہیں۔ جبکہ ان کے مقدمے کی باقاعدہ سماعت ابھی شروع ہی نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انصاف میں اس طرح کی تاخیر اپنے آپ ہی میں ناانصافی اور ظلم ہے۔ مقدمے کی سماعت سے پہلے طویل عرصے تک قید دراصل عدالتی عمل ہی کو سزا میں تبدیل کر دینے کے مترادف ہے۔ ملک معتصم خان نے اس بات پر زور دیا کہ پانچ سال کی قید کے بعد بھی ضمانت سے انکار نظام انصاف کے اصولوں کی پامالی ہے۔ بھارتی عدالتی نظام کی بنیاد یہ ہے کہ جب تک جرم ثابت نہ ہو جائے ہر شخص بے گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے اس فیصلے نے اس بنیادی اصول کو مجروح کیا ہے۔
نائب امیر نے کہا کہ یہ بات انہتائی تشویش ناک ہے کہ یو اے پی اے کا مسلسل غلط استعمال کیا جا رہا ہے، خصوصاً سی اے اے، این آر سی کے خلاف ہونے والے پر امن احتجاج میں شامل طلبائی قیادت اور سول سوسائٹی کے اراکین کے خلاف یک طرفہ کارروائی کی جا رہی ہے ۔پُرامن اختلاف رائے رکھنے والے شہریوں پر انسداد دہشت گردی جیسے سخت قوانین کا اطلاق سماج میں خطرناک نظیر قائم کرتا ہے۔ ملک معتصم خان نے مزید کہا کہ اس معاملے میں نہ تو کسی ہتھیار کی برآمدگی ہوئی ہے اور نہ ہی ان کو تشدد سے جوڑنے والا کوئی ثبوت پیش کیا گیا ہے۔ جن تقاریر کا حوالہ دیا جا رہا ہے وہ فسادات شروع ہونے سے کئی ہفتے پہلے کی ہیں۔ محض واٹس ایپ گروپ کی رکنیت کو سازش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ عدالت میں استغاثہ کی طرف سے یہ کہنا کہ ملزمان عالمی سطح پر ملک کو بدنام کرنے یا تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے تھے، محض سیاسی دعوے ہیں جو کسی عدالت میں ٹھوس شواہد کی جگہ نہیں لے سکتے۔
نائب امیر نے کہا کہ یہ فیصلہ پُرامن احتجاج اور آزادی اظہار پر منفی اثر ڈالے گا، خاص طور پر اقلیتوں اور طلبہ کارکنوں کی آوازوں کو دبانے کا باعث بنے گا۔ اصل فسادی آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں جبکہ پُرامن احتجاج کرنے والوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا ہے۔ یہ کسی حالت میں بھی انصاف نہیں ہے۔ ہم سپریم کورٹ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ جلد از جلد اس معاملے کی سماعت کرے اور انصاف کو یقینی بنائے۔ ہمیں امید ہے کہ عدالت عظمیٰ جمہوری آزادیوں کو بحال کرے گی، اصل مجرموں کو سزا دے گی اور اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچائے گی۔