رائےبریلی :اسلامی شریعت انسانی فطرت کے مطابق ہے، اس پر مکمل زندگی گذاری جائے اور شریعت کو سمجھا جائے، زندگی کا کوئی شعبہ ہو ہر شعبہ میں شریعت کی مطابقت ضروری ہے۔اس میں ذرا بھی کمی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بن سکتی ہے، ہماری شادی ،طلاق، وراثت ،تجارت زندگی کے جو بھی شعبے ہوسکتے ہیں سب میں شریعت کو سامنے رکھنا ضروری ہے ۔ان خیالات کا اظہار آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے زیر اہتمام رائے بریلی کے ایشیا لان میں منعقد ہونے والے تفہیم ورکشاپ سے ندوۃ العلماء کے ناظم وصدر جلسہ مولانا بلال عبد الحی حسنی ندوی نے اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔سیاست نیوز پورٹل کی خبر کے مطابق مولانا حسنی نے اپنے خطاب میںمعاشرتی خرابیوں کی طرف زور دیتے ہوئے کہا کہ آج ہمارا معاشرہ غیروں کے طریقہ کو قبول کررہا ہے، ہم اپنے نوجوانوں کو دیکھتے ہیں کہ غلط کاموں میں اپنی نوجوانی کو ضائع کررہے ہیں ،شادی بیاہ کا جو طریقہ ہم نے اپنایا ہے وہ طریقہ بالکل شریعت سے ہٹا ہوا ہے، ہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑدیا، آپ کے لائے ہوئے طریقہ سے ہم دستبردار ہوگئے، ہمارے گھر کی خواتین جو معاشرہ میں اہم کردار اداکرسکتی ہیں ان کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، کوئی ایسی بات جو خلاف شریعت ہو وہ گھر میں ہونے نہیں دینا ۔
مولانا نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے مزید کہاکہ آج ہم یہ نہیں دیکھتے کہ مال کہاں سے کمایا جارہے، حلال ہے یاحرام؟ اس کو سمجھنا ہوگا اسی طرح شادی بیاہ کی جو رسومات ہیں، جہیز کے مطالبات اور اس میں اسراف یہ انتہائی خطرناک ہیں، ہم کو اپنی زندگی کا جائزہ لینا ہے اور اپنی اصلاح کرنی ہے۔خطاب کے آخر میں مولانا نے زور دیتے کر کہا کہ ’’ہم کو یہ عزم کرنا ہے کہ ہم شریعت پر ہی جئیں گے اور شریعت پر ہی مریں گے،ہم اپنے اسلامی تشخص کے ساتھ ہی اس ملک میں باعزت شہری بن کررہیں گے، ہم اپنی اذانوں اور اپنی تہجد پر بھی اصرار کریں گے، ہم شریعت کے کسی بھی ادنی جز سے بھی دستبردار نہیں ہوسکتے۔ورکشاپ کے معزز مہمان، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن مولانا عبدالسبحان ناخداندوی مدنی نے اپنے کلیدی خطاب میں قرآن وحدیث کی روشنی میں پرمغز خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’طلاق جس کو سب سے مشکل بنایا گیا آج اس کو ہم نے آسان کرلیا، ہم بغیر سوچے سمجھے چھوٹی باتوں پر تین طلاق دے دیتے ہیں، خوب اچھی طرح سمجھ لیں کہ طلاق کا پورا ایک نظام ہے، اس کے اصول ہیں اور قرآن مجید نے ان اصولوں کو مکمل بیان کیا ہے، اگر ان اصولوں کی روشنی میں کام ہوگا تو اللہ تعالیٰ آسانی پیدا کرے گا ورنہ مشکلات اور تنگیاں ہمارا پیچھا نہیں چھوڑیں گی ،ہم نے شادی میں جن رسومات کو اپنے معاشرہ میں داخل کیا ہے وہ انتہائی خطرناک ہیں، اگر ہم نے ان سے اپنے معاشرہ کو پاک نہیں کیا تو عذاب الٰہی ہمارا مقدر ہوگا، اسی طرح وراثت میں جو لڑکیوں کا حق مارا جاتا ہے، یا تجارت کے مسائل میں جائز اور ناجائز نہیں دیکھا جاتا، یہ سب چیزیں غلط ہیں، ہم کو صرف شریعت کو سامنے رکھنا ہوگا ۔
پروگرام کے آغاز میں ورکشاپ کے ایک دوسرے معزز مہمان مولانا سہیل اختر صاحب (گلشن حبیبیہ رائے بریلی) نے معاشرتی خرابیوںپرتفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ’’علماء سے ہم اپنے مطلب کی بات پوچھتے ہیں، کبھی ہم ان چیزوں کے بارے میں نہیں پوچھتے جن سے ہمارا نقصان یا خطرہ ہو، ہم کو علماء کی قدر کرنی چاہیے اور ان سے دینی علوم کو سیکھنا چاہیے ۔مدرسہ ضیاء العلوم رائے بریلی کے مؤقر استاذ مولانا حسن صاحب ندوی نے اپنی تمہیدی گفتگو میں مکاتب کے قیام کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’آج ہماری نوجوان نسل قرآن سے بے بہرہ ہے، ہماری بچیاں غیروں کے یہاں جارہی ہیں،ہم کو ان کے ایمان کی فکر کرنی چاہیے۔ ‘‘
اس پروگرام کی نظامت دار عرفات کے رفیق مولانا محمد امین حسنی ندوی نے کی، انہوں نے جلسہ کے آغاز میں سب سے پہلے اس ورکشاپ کے مقاصد پر گفتگو کی اور کہا کہ ’’تفہیم شریعت کا یہ جلسہ اسی مقصد سے ہورہا ہے کہ ہم اپنے اندر فہم شریعت پیدا کریں اور اس کے ساتھ ساتھ حفاظت شریعت کا بھی کام کریں اورشریعت کی حفاظت ہم کو اپنی عملی زندگی سے کرنا ہوگی، ہم حکومت سے مطالبہ کرنے کا حق رکھتے ہیں لیکن اسی کے ساتھ ساتھ اگر ہم خود شریعت کو اپنی عملی زندگی سے ثابت نہیں کریں گے تو ہمارا مطالبہ بے بنیاد ہوگا ہم خود پہلے شریعت پر عمل کریں ۔پروگرام کے اخیر میں ناظم اجلاس نے سبھی مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ اس ورکشاپ میں شہر کے مؤقر افراد، سیاسی وسماجی رہنما اور سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ پروگرام کے منتظم اعلیٰ الحاج سہیل حسنی تھے۔