نئی دہلی :جماعت اسلامی ہندکے عہدیداروں نے آج اپنی پریس کانفرنس میں جن اہم مسائل پر روشنی ڈالی ،ان میںخواتین ریزرویشن بل ،پارلیمنٹ میں توہین آمیز زبان کا استعمال،ماب لنچنگ اور خواتین کے خلاف جنسی تشدد،بہار میں ذات پر مبنی مردم شماری اورصحافیوں کے گھروں پر چھاپے شامل ہیں ۔اس موقع جماعت اسلامی ہند کی جانب سے جو پریس نوٹ جاری کیا گیا ہے ،وہ اس طرح ہے۔
خواتین ریزرویشن بل:18ستمبر 2023 کو خواتین ریزرویشن بل پارلیمنٹ میں پاس ہوگیا اور صدر جمہوریہ ہند نے بھی اس کی منظوری دے دی ہے۔ اس نئے قانون ”ناری شکتی وندن ایکٹ 2023“ کی رو سے اب لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں میں 33 فیصد نشستیں خواتین کے لئے محفوظ ہوں گی۔ تاہم یہ مجوزہ قانون اگلی مردم شماری کی اشاعت اور حد بندی کی مشق کے بعد ہی عمل میں آئے گا، یعنی اس بل کے فوائد 2029 کے بعد ہی حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ البتہ اس میں خواتین کو راجیہ سبھا اور ریاستی قانون ساز کونسلوں میں ریزرویشن دیئے جانے کی کوئی صراحت موجود نہیں ہے۔ اس ایکٹ میں دیگر کئی مستحق طبقوں کونظر انداز کیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی ہند کا خیال ہے کہ ایک مضبوط جمہوریت کے لئے تمام مستحق طبقات اور برادریوں کو اقتدار کی تقسیم میں مناسب نمائندگی ملنا ضروری ہے۔ آزادی کو 75 سال گزر چکے ہیں، طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود پارلیمنٹ اور ریاستی ا سمبلیوں میں خواتین کی نمائندگی مایوس کن رہی ہے۔ اس لئے یہ نیا قانون اس سمت میں ایک اچھا اقدام ہے، اسے کافی پہلے آنا چاہئے تھا۔ اس ایکٹ میں ’ایس سی‘ اور’ایس ٹی‘ کی خواتین تو شامل ہیں لیکن ’او بی سی‘ اور’مسلم خواتین‘ کو شامل نہ کئے جانے کی وجہ سے ملک میں پائی جانے والی سماجی عدم مساوات دور نہیں ہو پائے گی۔ مختلف رپورٹوں اور مطالعات میں اس حقیقت کا انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک کے مسلمانوں بالخصوص خواتین کی سماجی و اقتصادی صورت حال بہت کمزور ہے۔ ان رپورٹوں میں جسٹس سچر کمیٹی رپورٹ (2006)، پوسٹ سچر ایولیو شن کمیٹی رپورٹ (2014)، ڈائیورسٹی انڈیکس پر ایکسپرٹ گروپ کی رپورٹ (2008)، انڈیا ایکسکلوژن رپورٹ (2013-14)، مردم شماری 2011، اور تازہ ’این ایس ایس او‘ رپورٹس شامل ہیں۔ ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں مسلمانوں کی نمائندگی مسلسل کم ہوتی جارہی ہے۔ ان اداروں میں ان کی نمائندگی آبادی کے تناسب سے بہت کم ہے۔ اس کمی کو دور کرنے کے لئے ریزرویشن ایک بہترین طریقہ ہے۔ مگر حالیہ ایکٹ میں ’او بی سی‘ اور’مسلم خواتین‘کو نظر انداز کیا جانا، ان کے ساتھ ناانصافی ہے اور ”سب کا ساتھ، سب کا وکاس“ جیسی معروف پالیسی کے خلاف بھی۔
پارلیمنٹ میں توہین آمیز زبان کا استعمال:لوک سبھا میں ’بی ایس پی‘ کے ایک رکن پارلیمنٹ کنور دانش علی کے خلاف بی جے پی کے ایم پی رمیش بھدوری نے پارلیمنٹ میں جو توہین آمیز زبان استعمال کیا، جماعت اسلامی ہند اس کی سخت مذمت کرتی ہے۔ بھدوری کے اس شرمناک رویے نے ملک کے ہر مہذب شہری کو ناراض اور پارلیمنٹ کے وقار کو مجروح کیا ہے۔ کسی بھی معزز شہری کو نسلی طعنے دینا اور اس کی مذہبی شناخت کو نشانہ بناکر اس کے مذہب کی تذلیل کرنا ایک مجرمانہ عمل ہے۔ بدقسمتی سے وزیر اعظم نے اس معاملے میں مسلسل خاموشی اختیار کررکھی ہے اور پارلیمنٹ میں بھدوری کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ جماعت سمجھتی ہے کہ پارلیمنٹ جیسے موقر ادارے میں بیٹھ کر ایسی بدتمیزی کرنے والے کو ہلکی سی سرزنش کرکے معاف نہیں کیا جانا چاہئے۔ یہ ایک با وقار رکن پارلیمنٹ کی توہین ہے جو کہ نفرت انگیزی کے مترادف ہے، کیونکہ سماج دشمن عناصر اسی طرح کے الفاظ استعمال کرکے ایک مخصوص مذہبی برادری کے خلاف شر پھیلاتے ہیں اور ان کے مذہب کی تذلیل کرتے ہیں۔ دراصل یہ سب برسراقتدار پارٹی کی جانب سے کوکیوں، مسلمانوں، دلتوں اور آدیواسیوں جیسے شہریوں کے ساتھ اپنائے گئے جارحانہ اور نسل پرستانہ سوچ کا فطری نتیجہ ہے جو بتدریج اپنا پیر پسارتا جارہا ہے۔ یہ رویہ حکمراں جماعت کے بہت سے اراکین کے اندر افزائش پارہے اسلاموفوبیا کو بے نقاب کرتا ہے۔ جماعت اسلامی ہند کا خیال ہے کہ ارکان پارلیمنٹ، شہریوں کے لئے رول ماڈل ہوتے ہیں۔ ان کے اس طرح کے جارحانہ رویے اور اس کے خلاف کارروائی نہ ہونے سے یہ پیغام جائے گا کہ اس طرح کا عمل اب معمول بن چکا ہے۔ اس سے شر پسند عناصر کو حوصلہ ملے گا جو ہماری شاندار روایتوں اور باہمی احترام و رواداری کی اقدار کو ٹھیس پہنچائے گا۔ اس لئے جماعت کا مطالبہ ہے کہ بھدوری کی رکنیت ختم کی جائے اور بی جے پی اسے پارٹی سے برخاست کرے۔ اگر بھدوری کو اس سے کم سزا دی گئی تو ہندوستانی جمہوریت کی شبیہ خراب ہوگی۔
ماب لنچنگ اور خواتین کے خلاف جنسی تشدد:جماعت اسلامی ہند، مسلمانوں کے خلاف ماب لنچنگ اور خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر سخت تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک 23 سالہ بے قصور مسلم نوجوان محمد اسحاق کی لنچنگ کا تازہ معاملہ شمال مشرقی دہلی کے سندر نگری میں سامنے آیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اس نوجوان کو چمڑے کی پٹی سے باندھ کر بے رحمی سے پیٹا گیا۔ اس پر یہ الزام تھا کہ اس نے قریب کے ایک مندر سے پرساد چوری کی تھی۔ ایک دوسرے واقعہ میں، ایک 17 سالہ محمد اقبال کو جے پور کے گنگا پول علاقے میں موٹر سائیکل کے ایک حادثے میں مداخلت کرنے کی وجہ سے ہجوم نے لوہے کی سلاخوں اور لاٹھیوں سے پیٹا۔ بتایا جاتا ہے کہ ہجوم کو جب معلوم ہوا کہ وہ ایک مسلمان ہے تو اس پر حملہ کیا گیا۔ جماعت کو لگتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف لنچنگ کے یہ واقعات ملک میں پھیلے ہوئے فرقہ وارانہ زہریلے ماحول کے نتیجے ہیں۔ موجود وقت میں جمہوریت مخالف عناصر اور فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کو معاشی و سیاسی طور پر کمزور کرنے اور سماجی سطح پر ان کے خلاف نفرت پید اکرنے کی منظم مہم چلا رہی ہیں، اس سے نہ صرف ہماری جمہوری اقدار کمزور ہورہی ہیں بلکہ قوم کو درپیش اصل مسائل سے توجہ بھی ہٹائی جارہی ہے۔
جماعت اسلامی ہند، خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کرتی ہے۔’اجین‘ میں ایک نابالغ لڑکی کی عصمت دری کی گئی۔ رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ زیادتی کرنے والے نے عصمت دری کے بعد اسے پھینک دیا۔ وہ بغیر کپڑوں کے بہتے ہوئے خون کے ساتھ گھر گھر جاکر گھنٹوں مدد مانگتی رہی لیکن کسی نے اس کی مدد نہیں کی۔ اس سے ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی خود غرضی اور بے رحمی کا پتہ چلتا ہے۔ ہمارے ملک میں ہر روز کسی نہ کسی نابالغ لڑکی یا عورت کی عصمت دری کی خبر ملتی ہے۔’این سی آر بی 2021‘کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ ملک میں روزانہ 86 عصمت دری کے واقعات ہوتے ہیں اور خواتین کے خلاف فی گھنٹہ 49 جرائم رجسٹرڈکئے جاتے ہیں جبکہ مقدمات میں سزا کی شرح صرف 26.5 فیصد ہے۔ جماعت چاہتی ہے کہ خواتین کے خلاف جنسی جرائم کے مسئلے کو جامع طریقے سے حل کیا جائے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ عصمت دری کرنے والوں کے خلاف سخت قوانین، تیز رفتار ٹرائل اور عبرتناک سزا متعین ہو، اس کے ساتھ ہی معاشرے کی اخلاقی اصلاح پر بھی خصوصی توجہ مرکوزکی جائے۔ یہ بات ذہن نشیں رہے کہ جب تک خوف خدا اور آخرت میں احتساب کی فکر پید انہیں کی جائے گی، تب تک عورتوں کا جنسی استحصال انسانیت کو تڑپاتا رہے گا۔
بہار میں ذات پر مبنی مردم شماری:جماعت اسلامی ہند،بہار میں ذات پر مبنی مردم شماری رپورٹ کا خیر مقدم کرتی ہے۔ سماج میں حاشیے پر پڑے ہوئے اور محروم طبقات کے بارے میں تازہ ترین اعدادو شمار حاصل کرنے کے لئے ملک گیرمردم شماری ضروری ہے، کیونکہ تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں ذات کی بنیاد پر ریزرویشن فراہم کیا جاتا ہے۔یہ مردم شماری پالیسی سازوں کو بہتر پالیسیاں وضع کرنے اور زیادہ درست فلاحی پروگرام بنانے میں معاون ہوگی۔ حالانکہ ماضی میں درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل، مذاہب اور لسانی پروفائلز کے لئے مردم شماری کی جا چکی ہے، لیکن مختلف ذاتوں پر مبنی قومی سطح پر تازہ ترین مردم شماری کا کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔ ذات کے لحاظ سے آخری مردم شماری 1931 میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد سماجی و اقتصادی اور ذات کی مردم شماری (ایس ای سی سی) 2011 میں کی گئی تھی۔تاہم حکومت کی جانب سے اس کے نتائج جاری نہیں کئے گئے، جبکہ آئین ہند کا آرٹیکل 340 سماجی و تعلیمی طور پر پسماندہ طبقات کے حالات کی چھان بین کرنے اور حکومتوں سے سفارشات کے لئے ایک کمیشن کی تقرری کی ترغیب دیتا ہے۔ البتہ ذات پر مبنی مردم شماری سے کچھ خدشات کا بھی اظہار کیا جارہا ہے کہ اس سے ذات پات کی بنیاد پر سیاسی تحریک کو فروغ ملے گا جومعاشرے میں تقسیم کا باعث بنے گی۔ لیکن جماعت کو لگتا ہے کہ یہ خدشات درست نہیں ہیں۔انصاف اور مساوات کے لئے اس طرح کی مردم شماری قومی سطح پر کیا جانا وقت کی ضرورت ہے۔ ’بہار کاسٹ سروے‘ کے نتائج سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ آبادی کے اعدادو شمار اور پیش کردہ موجودہ ریزرویشن کس طرح غیرمتوازن ہیں۔ اس سروے میں بتایا گیا ہے کہ دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) اور انتہائی پسماندہ طبقات (ای بی سی) ریاست کی کل آبادی کا 63 فیصد ہیں، یعنی او بی سی 27 فیصد اور ای بی سی 36 فیصد ہیں۔ سروے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یادو (او بی سی) آبادی کا 14.27 فیصد ہیں جبکہ دلت (شیڈولڈ کاسٹ) 19.65 فیصد ہیں۔ درج فہرست قبائل 1.68 فیصد ہیں جبکہ غیر محفوظ کل آبادی کا 15.52 فیصد ہیں۔ جماعت اسلامی ہند کا خیال ہے کہ ریزرویشن ہر طبقے کے لئے آبادی کے تناسب سے ہونا چاہئے۔
صحافیوں کے گھروں پر چھاپے:’ٹیرر کنکشن‘ کی تحقیقات کے نام پر دہلی پولیس کے ذریعہ متعدد صحافیوں جن میں اسٹینڈ اپ کامیڈین، طنزیہ مضامین لکھنے والے رائٹرس اور تبصرہ نگار شامل ہیں، ان کے گھروں پر صبح سویرے چھاپے مارنے کی جماعت اسلامی ہند سخت مذمت کرتی ہے۔ ایک سرسری نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ دہلی پولیس نے ان صحافیوں کو نشانہ بنایا ہے جو حکومت کی مختلف پالیسیوں پر سب سے زیادہ آواز اٹھاتے اور تنقید کرتے تھے۔ جن صحافیوں کے خلاف چھاپے ماری کی گئی، ان میں ’نیوز کلک‘ کے چیف ایڈیٹر پربیر پور کایستھ،صحافی ابھیسار شرما، بھاشا سنگھ، ارملیش، گیتا ہری ہرن، آنندیو چکرورتی، مورخ سہیل ہاشمی اور طنز نگار سنجے راجور وغیرہ شامل ہیں۔ میڈیا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ’سی پی آئی‘ لیڈر سیتا رام یچوری، سماجی کارکن تیستا سیتلواڈ اور نامور صحافی پرنجے گوہا ٹھاکرتا کے گھروں پر بھی دہلی پولیس نے چھاپے مارے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ان صحافیوں کے خلاف ’یو اے پی اے‘ اور’آئی پی سی‘ کے کئی دفعات کے تحت’ایف آئی آر‘ درج کی گئی ہے۔ میڈیا کے خلاف حکومت کا یہ رویہ کوئی نیا نہیں ہے۔ جماعت کو لگتا ہے کہ صحافیوں کے خلاف اس طرح کے الزامات اور انہیں ڈرانے دھمکانے کا رویہ آئین ہند میں موجود ’آزادی اظہار رائے‘کے خلاف ہے۔ اس سے ہماری جمہوریت کمزور ہوگی۔ جماعت تمام انصاف پسند لوگوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ اس اقدام کی مذمت کریں اور صحافی جو کہ جمہوریت کے محافظ ہوتے ہیں، ان سے اظہار یکجہتی کے لئے آواز بلند کریں۔