نئی دہلی : دہلی ہائی کورٹ نے منگل کے روز 2020 کے دہلی فسادات کی مبینہ سازش سے جڑے یو اے پی اے کیس میں عمر خالد، شرجیل امام اور سات دیگر ملزمان کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کر دیں۔جسٹس نوین چاولہ اور جسٹس شالندر کور پر مشتمل بنچ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ تمام اپیلیں مسترد کی جاتی ہیں۔ یہ فیصلہ 9 جولائی کو محفوظ رکھا گیا تھا، جس کی تفصیلی کاپی بعد میں جاری کی جائے گی۔ملزمان 2020 سے جیل میں بند ہیں اور انہوں نے ٹرائل کورٹ کے ضمانت مسترد کرنے کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ ان میں محمد سلیم خان، شفا الرحمٰن، آتھر خان، میرعان حیدر، خالد سیفی، گلفشہ فاطمہ اور شاداب احمد شامل ہیں۔استغاثہ نے دلیل دی کہ یہ کوئی ’’خود بخود شروع ہونے والے فسادات ‘‘نہیں تھے بلکہ ’’منصوبہ بند سازش ‘‘تھی، جس کا مقصد عالمی سطح پر ہندوستان کو بدنام کرنا تھا۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہاکہ اگر کوئی ملک کے خلاف کچھ کرے گا تو اسے جیل میں رہنا چاہیے، چاہے اس کی قید لمبی ہی کیوں نہ ہو۔
شرجیل امام کے وکیل نے کہا کہ وہ اس مقام، وقت اور شریک ملزمان سے مکمل طور پر الگ تھے۔ ان کی تقاریر یا واٹس ایپ چیٹس میں کہیں بھی بدامنی پر اکسانے کی بات نہیں ہے۔دہلی پولیس نے کہا کہ یہ فسادات ایک’’کلینکل اور پیتھالوجیکل سازش ‘‘ تھے، جس میں عمر خالد، شرجیل امام اور دیگر نے اپنی تقاریر میں سی اے اے۔ این آر سی، بابری مسجد، تین طلاق اور کشمیر جیسے موضوعات کے حوالے دے کر خوف پیدا کیا۔ پولیس نے مزید کہا کہ ایسے سنگین جرائم میں ضمانت اصولاً نہیں دی جاسکتی۔ یہ کیس اس وقت درج ہوا تھا جب دہلی میں فروری 2020 کے فسادات کے دوران 53 افراد ہلاک اور 700 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ فسادات سی اے اے اور این آر سی کے خلاف مظاہروں کے دوران شروع ہوئے تھے۔ عمر خالد اور شرجیل امام کو یو اے پی اے اور تعزیرات ہند کی دفعات کے تحت ’’ماسٹر مائنڈ‘‘ قرار دیتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔ امام کو 25 اگست 2020 کو گرفتار کیا گیا تھا۔