اقوام متحدہ :اقوام متحدہ حقوق انسانی دفتر نے بنگلہ دیش بحران سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اب تک تقریباً 650 لوگوں کی موت واقع ہو چکی ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ تشدد، گرفتاریوں اور عدالتی حراست میں اموات کے واقعات کی غیر جانبدارانہ اور شفاف طریقے سے جانچ ہونی چاہیے۔اقوام متحدہ نے بنگلہ دیش تشدد کے تعلق سے 10 صفحات پر مبنی ایک رپورٹ تیار کی ہے جس میں کچھ اہم باتیں دنیا کے سامنے رکھی گئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 16 جولائی سے 4 اگست کے درمیان تشدد میں تقریباً 400 لوگوں کی موت ہوئی، پھر 6-5 اگست کو پیدا تشدد میں تقریباً 250 لوگوں کی جانیں گئیں۔ ان حالات میں شیخ حسینہ کو اپنے عہدہ سے استعفیٰ دینا پڑا۔
مختلف میڈیا رپورٹس اور تحریک چلانے والی تنظیموں نے بھی جولائی سے اگست میں ریزرویشن مخالف مظاہرے کے دوران 600 لوگوں کی موت کا دعویٰ کیا تھا۔ اقوام متحدہ حقوق انسانی دفتر نے جمعہ کے روز جنیوا میں اپنی رپورٹ جاری کر میڈیا رپورٹس کو سچ ثابت کر دیا۔ اس رپورٹ کے مطابق مہلوکین میں مظاہرین، خاموش تماشائی، صحافی اور مختلف فورسز کے سیکورٹی اہلکار شامل ہیں۔ تشدد میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ مہلوکین کی تعداد ابھی بڑھ سکتی ہے، کیونکہ کئی علاقوں میں کرفیو نافذ ہونے کے سبب انھیں جانکاری اکٹھا کرنے میں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت کے ذریعہ بھی اسپتالوں کو جانکاری دینے سے روکا جا رہا ہے۔ بنگلہ دیش میں ریزرویشن کے خلاف جون میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے تھے۔ احتجاجی مظاہرہ کے دوران سیکورٹی فورسز کے ذریعہ حقوق انسانی کی خلاف ورزی سے متعلق الزام بھی لگے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیکورٹی فورسز کے ذریعہ مظاہرین کے خلاف سختی سے نمٹا گیا جس سے حالات بگڑ گئے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف بھی لوٹ پاٹ، توڑ پھوڑ اور آگ زنی کے واقعات پیش آئے۔ ساتھ ہی عوامی لیگ کے کارکنان اور لیڈران کا قتل بھی ’بدلہ کے جذبہ‘ سے کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بنگلہ دیش میں نظام قانون کو تیزی سے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی تشدد کے قصورواروں کے خلاف جوابدہی طے کرنے کی ضرورت بھی بتائی گئی ہے۔