نئی دہلی: نئی دہلی میں واقع ساڑھے تین سو سال قدیم سنہری باغ مسجد کو شہید کرنے کی تقریباً سبھی تیاریاں مکمل ہو گئی ہیں۔ اب محض خانہ پری کی جارہی ہے۔سیاست نیوزکی خبرکے مطابق این ڈی ایم سی نے ایک مہم نوٹس جاری کر کے مسجد کو شہید کرنے سے قبل اعتراضات طلب کئے ہیں۔ واضح رہے کہ دہلی ٹریفک کمشنر نے مسجد کے ارد گرد ٹریفک کے بہ آسانی گزرنے میں پریشانی کا بہانہ بناتے ہوئے این ڈی ایم سی کو خط لکھا تھا۔ این ڈی ایم سی کی ٹیم نے مسجد کا مشترکہ معائنہ بھی کیا، جس کے بعد مسلمانوں میں سخت بے چینی اور تشویش پیدا ہوگئی تھی۔ اس وقت چند ملی رہنماؤں کے حرکت میں آجانے کی وجہ سے وقف بورڈ اس معاملہ کو عدالت میں لے گیا تھا، جہاں سے جوں کی توں صورتحال برقرار رکھنے کا حکم آیا تھا۔ تاہم، یہ الزام عائد کیا جارہا ہے کہ دہلی وقف بورڈ اور اس کے چیف ایگزیکٹیو افسر ریحان رضا نے اس مسئلہ میں زیادہ سرگرمی نہیں دکھائی۔ علاوہ ازیں وہ مرکزی حکومت کے ملازم ہونے کی وجہ سے دباؤ کا بھی شکار ہیں۔ دہلی کی نام نہاد مذہبی کمیٹی نے وقف بورڈ کی مخالفت کے باوجود اعلان کر دیا کہ سنہری باغ مسجد کو بٹانے کیلئے اتفاق رائے ہو گیا۔ قومی راجدھانی دہلی میں مسلمانوں کی بھی بڑی تنظیموں کے دفاتر موجود ہیں۔ بڑے ملی رہنما بھی اسی شہر میں رہتے ہیں تا ہم سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ مسجد کی شہادت کے بعد کس کے دامن پر ساڑھے تین سو سال قدیم مسجد کا لہو تلاش کیا جائے گا؟ وقف املاک اور مساجد کے تحفظ کے معاملہ پر سماعتوں کو چیر دینے والی ملی رہنماؤں کی خاموشی سے عام مسلمان بھی سخت پریشان ہیں۔ سنہری مسجد کے مقدمہ سے وابستہ باوثوق ذرائع نے کہا ہے کہ ملت کو آگاہ کر دیں کہ مسجد کی شہادت کا پورا منصوبہ تیار ہے۔ این ڈی ایم سی کا نوٹس بالکل بدنیتی پر مبنی ہے۔ یہ نوٹس ایک ایسے وقت میں نکالا گیا جب چھٹیاں چل رہی ہیں، تا کہ اچانک دھاوا بول کر مسجد شہید کردی جائے۔ کئی لوگوں نے بتایا کہ یہ مسلمانوں کے ردعمل کو جانچنے کی ایک کوشش ہے، اگر سنہری مسجد کو شہید کرنے کی کوششوں پر خاموشی اختیار کی گئی تونئی دہلی کی دیگر مساجد کا بھی یہی انجام ہوگا۔لوگوں نے یہ بھی سوال کیا کہ وقف املاک کا معاملہ آ خر دہلی وقف بورڈ کے سہارے کیوں چھوڑ دیا گیا اور اس میں بڑی مسلم تنظیمیں خاموش کیوں ہیں؟ وہ اس میں مداخلت کیوں نہیں کر رہی ہیں؟ وقف بورڈ اور اس کی گورننگ باڈی نہ ہونے کی وجہ سے وقف بورڈ کے سی ای او ہی پوری طرح سے انتظامی امور سے متعلق سبھی فیصلے لے رہے ہیں لہذا انہیں نہ صرف بورڈ کے موقف کو قتی کے ساتھ رکھنا چاہئے تھا بلکہ مسجد کے تحفظ کے لئے بھی اقدامات کرنے چاہئیں تھے۔
دریں اثناء جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود ارشد مدنی نے وزیر اعظم نریندر مودی ا ور وزیرداخلہ امیت شاہ کو خط لکھ کرنئی دہلی کے راج پتھ پر واقع مسجد سنہری باغ کے ممکنہ انہدام پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے ۔ یہ اطلاع ٖآج یہاں جاری ایک ریلیز میں دی گئی ہے ۔انہوں نے اپنے مکتوب میں وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نئی دہلی میونسپل کونسل (NDMC) کی جانب سے مسجد سنہری باغ کے ہٹانے سے متعلق رائے عامہ کے حصول کے نوٹیفکیشن پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی کارروائی ہمارے مشترکہ ورثے کو شدید نقصان پہنچائے گی۔
یہ مسجد ملک کے مرکزی جگہ پر دوسو سالوں سے قائم ہے جو ہمارے ملک کے بھرپور ثقافتی اور تاریخی ورثے کی گواہ ہے ۔ ہمارا ملک کثرت میں وحدت سے معنون ہے اور بقائے باہم کے اصولوں سے مالا مال ہے ۔ اپنی عظمت اور شان کے ساتھ قائم یہ مسجد نہ صرف ار د گرد رہنے والوں کے لیے عبادت کی جگہ ہے بلکہ ان قابل فخر وراثت کی حامل بھی ہے ۔مزید برآں اکتوبر 2009 کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق یہ مسجد گریڈ III کی ہیریٹیج عمارت میں شامل ہے ۔ہم آپ سے گزارش کرتے ہیں کہ آپ بذات خود اس معاملے کا نوٹس لیں اور مسجد سنہری باغ کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ضروری اقدامات کریں۔ ہمیں یقین ہے کہ اس معاملے میں آپ کی مداخلت اس ملک کی ثقافتی شناخت کے تحفظ کے لیے حکومت کے عزم کو تقویت پہنچائے گی۔
دریں اثنا جمعیۃ علماء ہند کے ایک مرکزی وفد نے آج دوپہر ناظم عمومی مولانا حکیم الدین قاسمی کی قیادت میں سنہری باغ مسجد پہنچ کرامام مولانا عبدالعزیز سے ملاقات کی اور مسجد سے متعلق پوری صورت حال سے آگاہی حاصل کی۔ امام صاحب نے بتایا کہ ہماری مسجد سرکار کی طرف سے سیکوریٹی کی ہر ہدایت پر عمل پیرا ہوتی ہے ، یہاں تک کہ پارلیامنٹ سیشن کے دوران یہاں جماعت سے نماز کا اہتمام نہیں ہوتا۔نیز اس مسجد کی وجہ سے ٹریفک کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے ، بس ہم اللہ سے دعاء کرتے ہیں کہ وہ اس مسجد کی حفاظت فرمائے ۔ اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند کے وفدنے ہر ممکن تعاون کن ی یقین دہانی کرائی۔ ناظم عمومی مولانا حکیم الدین قاسمی نے دہلی کے لوگوں سے خاص طور پر اپیل کی کہ وہ این ڈی ایم سی کے نوٹیفکیشن کا جواب دیں کہ وہ اس مسجد کے انہدام کو ہر گز پسند نہیں کرتے ۔جمعیۃ کے وفد میں ناظم عمومی کے علاوہ مولانا غیور احمد قاسمی سیئنر آرگنائزر جمعیۃ علماء ہند، مولاناعرفان قاسمی آرگنائزر جمعیۃ علماء ہند، مولانا مفتی ذاکر حسین قاسمی، مولانا احتشام قاسمی اور مولانا عظیم اللہ صدیقی شامل تھے ۔