نئی دہلی: مفتی اعظم ہند حضرت مفتی محمد کفایت اللہ دہلویؒ پر 2 روزہ سیمینار کی اہم اور آخری مجلس کل ماؤلنکر ہال، کانسٹی ٹیوشن کلب، نئی دہلی میں منعقد ہوئی۔ مولانا محمد سلمان بجنوری نائب صدر جمعیۃ علماء ہند اور مولانا مفتی محمد راشد اعظمی نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے بالترتیب آخری 2 نشستوں کی صدارت کی۔ نظامت کے فرائض ناظمِ عمومی جمعیۃ علماء ہند مولانا محمد حکیم الدین قاسمی اور مفتی محمد عفان منصورپوری نے انجام دیے۔
قبل ازیں، دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے اپنے بلیغ خطاب میں مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ کی حیات، اخلاق اور ملی خدمات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ مفتی اعظمؒ کی زندگی دراصل گزشتہ سو سالہ ملکی تاریخ اور اس میں علما کے عظیم کردار کی جھلک ہے۔ ان کی شخصیت میں تواضع، ایثار، خدمتِ خلق اور اساتذہ سے گہرا تعلق نمایاں تھا۔ اکابر کی حیات کے مطالعے سے نہ صرف تاریخ سمجھ میں آتی ہے بلکہ عملی زندگی کے لیے رہنمائی بھی ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مفتی کفایت اللہؒ کے اساتذہ، معاصرین اور تلامذہ سب اپنے وقت کے جلیل القدر علماء تھے، جس سے ان کے مقام و مرتبہ کا اندازہ ہوتا ہے۔
کل کی مجلس میں صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے ایک اہم پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ تقسیمِ وطن کے خلاف ہمارے اکابر کامل اتفاق رکھتے تھے۔ انہوں نے اس سلسلے میں کوئی بات بلا دلیل نہیں کہی؛ ان کے بے شمار دلائل رسائل، تقاریر اور تحریروں کی صورت میں موجود ہیں۔ موجودہ حالات میں بعض نوجوانوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اکابر نے غلط راہ اختیار کی تھی۔ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ حالات واقعی دشوار ہیں، لیکن اس کے دوسرے حصے سے اتفاق نہیں ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ ہمارے اکابر کا فیصلہ بالکل درست تھا، البتہ ان کے فیصلے پر پوری طرح عمل نہ ہو سکا۔ اگر ان کی تجویز کو قبول کیا جاتا اور مسلمان، علما اور ذمہ دار سب یکجا ہو کر ایک موقف اختیار کر لیتے تو صورتِ حال یقیناً مختلف ہوتی۔

















