نئی دہلی: دہلی یونیورسٹی طلبا یونین (ڈوسو) کے لیے ہوئے انتخاب کو لے کر تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ اس انتخاب کو رَد کرنے کی عرضی دہلی ہائی کورٹ میں داخل کی گئی تھی، جس پر عدالت نے نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت شروع کر دی ہے۔ عدالت نے چیف الیکشن کمشنر کو ہدایت دی ہے کہ انتخاب میں استعمال ہونے والی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) کو محفوظ رکھا جائے۔ اس معاملے کی آئندہ سماعت کے لیے 16 دسمبر کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ یعنی سبھی کو اس معاملے کی پیش رفت کے لیے 16 دسمبر تک انتظار کرنا پڑے گا۔
یہ عرضی ڈوسو کے سابق صدر اور این ایس یو آئی لیڈر رونق کھتری کی طرف سے داخل کی گئی ہے۔ کھتری نے الزام لگایا ہے کہ 18 ستمبر کو ہونے والے انتخابات اور ووٹوں کی گنتی میں گڑبڑی ہوئی تھی۔ انہوں نے نتیجہ آنے سے قبل ہی میڈیا پر بیان دیا تھا کہ ای وی ایم میں خرابی ہے اور وہ اس معاملے کو عدالت لے کر جائیں گے۔
دوسری طرف دہلی یونیورسٹی نے انتخابات منسوخ کرنے کا مطالبہ کیے جانے کی مخالفت کی ہے۔ حالانکہ اس عرضی پر سماعت شروع ہو چکی ہے، اور اب عدالتی پیش رفت پر سبھی کی نظریں ہیں۔ انتخابی نتائج جاری ہونے کے بعد دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دیویندر کمار اپادھیائے اور جسٹس تُشار راؤ گیدیلا کی بنچ نے آرین مان اور کنال چودھری کو بھی نوٹس جاری کیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے انتخابی رہنما خطوط کی خلاف ورزی کی۔ اس ضمن میں اگلی سماعت 6 نومبر کو ہوگی۔
قابل ذکر ہے کہ 18 ستمبر کو ہوئے ڈوسو انتخابات میں صدر عہدہ پر اے بی وی پی کے آرین مان نے، نائب صدر عہدہ پر این ایس یو آئی کے راہل جھانسلا نے، سکریٹری عہدہ پر اے بی وی پی کے کنال چودھری نے، اور جوائنٹ سکریٹری عہدہ پر بھی اے بی وی پی کی دیپیکا جھا نے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس بار طلبا انتخابات میں تقریباً 39 فیصد ووٹنگ ہوئی۔ اس دوران ٹریفک پولیس نے کالجز کے اطراف ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر 6,000 سے زائد چالان بھی کاٹے۔