اس اہم اجلاس میں جنوبی ہند کے نامور وکلاء، دانشوران اور جمعیۃ سے وابستہ کارکنان کثیر تعداد میں شریک ہوئے۔ اجلاس کی نظامت حاجی حسن احمد، جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء تمل ناڈو، نے کی جبکہ صدر جمعیۃ علماء ہند کے خطاب کا خلاصہ تمل زبان میں مولانا منصور کاشفی نے پیش کیا۔
مولانا مدنی نے موجودہ ملکی حالات پر اظہارِ تشویش کرتے ہوئے کہا کہ آج ملک ایک نئے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں نفرت کو حب الوطنی کا لبادہ پہنایا جا رہا ہے اور ظالموں کو قانون کی زد سے بچایا جا رہا ہے۔ یہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے مستقبل کا مسئلہ ہے۔ فرقہ واریت کی آگ میں صرف اقلیتیں نہیں بلکہ ملک کا وجود جھلس رہا ہے۔ جس زمین پر بھائی چارہ ختم ہو جائے وہاں ترقی کا بیج نہیں اگتا، اور جس ملک میں اقلیتوں کو انصاف نہ ملے اس کی دنیا میں عزت باقی نہیں رہتی۔ انہوں نے زور دیا کہ نفرت کے مقابلے میں کردار، خدمت اور حکمت سے کام لینا ہوگا، عداوت سے نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے آئینی حقوق موجود ہیں لیکن ان کے تحفظ کی ذمہ داری بھی ہم پر ہے۔ بدقسمتی سے آج پارلیمنٹ یا انتظامیہ سے اس ضمن میں زیادہ امید نہیں رکھی جا سکتی۔ امید کی کرن عدلیہ اور قانون کے شعبے میں ہے، اگرچہ سب سے زیادہ کوتاہی اسی نظام سے ہوئی ہے، پھر بھی امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ کامیابی کے لیے تعلیم، تنظیم اور تجارت بنیادی ستون ہیں۔ انہوں نے جنوبی ہند کے مسلمانوں کو ان شعبوں میں شمالی ہند کے مقابلے میں آگے قرار دیا لیکن اس بات پر زور دیا کہ ابھی بھی بہت کام باقی ہے، خصوصاً بچیوں کی تعلیم اور تربیت پر۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ دینی اور عصری تعلیم کو کم از کم ابتدائی سطح پر یکجا کیا جانا چاہیے تاکہ طلبہ قرآن کو پڑھ اور سمجھ سکیں اور ساتھ ہی عصری مضامین میں مضبوط بنیاد حاصل کریں۔
انہوں نے کہا کہ اللہ نے ہمیں اس سرزمین پر پیدا کیا ہے، یہ ہمارا انتخاب نہیں بلکہ اس کی حکمت ہے۔ یہاں ہماری ذمہ داری ہے کہ کمیونٹی کو تعلیم یافتہ، بااختیار اور مضبوط بنایا جائے اور دین اسلام کا اعلیٰ کردار پیش کر کے دل جیتے جائیں۔ نبی کریم ﷺ نے سب سے پہلے اپنے کردار سے دل جیتے، ہمیں بھی دعوتی مزاج اپنانا ہے، عداوتی نہیں۔
وقف بورڈز کے حوالے سے انہوں نے ایس جی پی سی طرز پر خودمختار ادارہ بنانے کا مطالبہ دہرایا اور مشورہ دیا کہ موجودہ حالات میں نئے اوقاف کے بجائے پرائیویٹ ٹرسٹ قائم کیے جائیں تاکہ سرکاری قبضے سے بچا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے کئی زندہ مثالیں موجود ہیں جو اس خطرے کو ثابت کرتی ہیں۔
مولانا مدنی نے ڈرگز کے بڑھتے پھیلاؤ کو سنگین سماجی خطرہ قرار دیا اور کہا کہ یہ وبا شہروں سے نکل کر قصبوں تک پہنچ چکی ہے، خاص طور پر کیمیکل ڈرگز کے استعمال پر فوری سروے اور والدین کی تربیت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر بچوں کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف نہ کیا گیا تو وہ خود بخود غلط راستوں پر چل پڑیں گے، اس لیے والدین کی رہنمائی ہر مرحلے پر ضروری ہے اور یہ ذمہ داری سماجی تنظیموں کو لینی ہوگی۔