جوہانسبرگ: جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا کی پارٹی افریقن نیشنل کانگریس (اے این سی) کو اس بار پارلیمنٹ میں اکثریت نہیں ملی۔ جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کو آزاد کرنے والی پارٹی کے ساتھ گزشتہ تیس سالوں میں پہلی بار ایسا ہو رہا ہے۔ بدھ کو ہونے والے انتخابات کے بعد 99 فیصد ووٹوں کی گنتی ہو چکی ہے جس میں حکمران جماعت اے این سی کو صرف 40 فیصد ووٹ ملتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ تعداد اکثریت سے بہت پیچھے ہے۔ 30 سال قبل 1994 میں نیلسن منڈیلا کے منتخب ہونے کے بعد پہلی بار اے این سی کو اکثریت نہیں ملی ہے۔جنوبی افریقی انتخابی کمیشن نے ابھی تک حتمی نتائج جاری نہیں کیے ہیں، لیکن اے این سی اکثریت کے لیے ووٹروں کے ٹرن آؤٹ کے 50 فیصد تک نہیں پہنچ سکتی ہے۔ کیونکہ 99 فیصد ووٹوں کی گنتی ہو چکی ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق مکمل نتائج کا اعلان آج یعنی اتوار تک کیا جا سکتا ہے۔ ملک کی اپوزیشن جماعتوں نے اس بار کے انتخابی نتائج کو ایک اہم کامیابی قرار دیا ہے، اپوزیشن نے کہا کہ ان کا ملک شدید غربت اور عدم مساوات سے نبرد آزما ہے۔
اس وقت پارلیمنٹ میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود اے این سی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ افریقن نیشنل کانگریس کو دوبارہ حکومت بنانے اور صدر سیرل رامافوسا کو دوبارہ منتخب کرنے کے لیے اتحاد کا سہارا لینا پڑے گا۔ قومی انتخابات کے بعد، جنوبی افریقہ کی پارلیمنٹ صدر کا انتخاب کرتی ہے۔ اس نتیجے کے بعد جنوبی افریقہ میں اے این سی کا تین دہائیوں سے غلبہ ختم ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ اے این سی کا راستہ اور بھی مشکل نظر آرہا ہے، کیونکہ اب تک کوئی اپوزیشن پارٹی اتحاد کے لیے آگے نہیں آئی ہے۔جنوبی افریقہ کی مرکزی اپوزیشن جماعت ‘ڈیموکریٹک الائنس کو تقریباً 21 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ ملک کے سابق صدر جیکب زوما کی ‘ایم کے پارٹی نے پہلے الیکشن میں ہی 14 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں جس کے بعد وہ ملک کی تیسری بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ اس کے علاوہ ‘اکنامک فریڈم فائٹر9 فیصد سے زائد ووٹوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت سازی کے لیے مذاکرات کا دور شروع ہونے والا ہے لیکن یہ عمل مشکل ہو سکتا ہے۔