گریس کے ساحل پر لوگوں سے بھری ہوئی ایک کشتی پلٹ جانے سے 300 سے زائد پاکستانی شہریوں کی موت ہو گئی ہے۔ جنگ، مظالم اور غریبی سے پریشان یہ لوگ یوروپ میں پناہ لینے کے ارادے سے جا رہے تھے۔ سی این این نے بتایا کہ پاکستان کی سینیٹ کے سربراہ محمد صادق سنجرانی نے ایک بیان میں مہلوکین کی تعداد کا انکشاف کیا ہے۔ حالانکہ گریک افسران نے ابھی تک پاکستان کے مرنے والوں کی تعداد سے متعلق کوئی تصدیق نہیں کی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان اس وقت گزشتہ کچھ دہائیوں میں اپنے سب سے خراب معاشی حالات کا سامنا کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی پاکستانیوں نے ملک چھوڑ کر دوسرے ممالک میں پناہ لے لی ہے۔ سی این این کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بہتر مستقبل کی تلاش میں خطرناک راستوں سے یوروپ جانے والے پاکستانیوں کا معاملہ پورے ملک میں گونج رہا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کشتی ڈوبنے سے مرنے والوں کے لیے پیر کو قومی غم منانے کا اعلان کیا۔ ایک ٹوئٹ میں انھوں نے جانکاری دی کہ حادثہ کی اعلیٰ سطحی جانچ کا حکم دے دیا گیا ہے۔
شہباز شریف نے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ ’’میں ملک کو یقین دلاتا ہوں کہ اپنی ذمہ داری کے تئیں لاپروائی برتنے والوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے گا۔ جانچ کے بعد ذمہ داری طے کی جائے گی اور کارروائی کی جائے گی۔‘‘
بہرحال، آئی او ایم کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتہ کشتی پلٹنے کا یہ واقعہ پیش آیا جس میں تقریباً 750 مرد، خواتین اور بچے سوار تھے۔ حادثے میں سینکڑوں لوگوں کی موت ہو گئی۔ یہ بحیرۂ روم میں سب سے دردناک حادثات میں سے ایک تھا۔ اس حادثہ نے یوروپی یونین کے مہاجر بحران پر ایک روشنی ڈالی ہے۔ اس میں ہر سال ہزاروں مہاجر جنگ، ظلم، ماحولیاتی تبدیلی اور غریبی سے متاثر ہو کر جوکھم والے راستوں سے بھاگ کر یوروپ جاتے ہیں۔