امپھال :منی پور میں جاری تشدد کو دو سال مکمل ہو چکے مگر ریاست آج بھی بے یقینی کے اندھیرے میں ڈوبی نظر آتی ہے۔ خیال رہے کہ منی پور میں تشدد کی شروعات 3 مئی 2023 کو شروع ہوئی تھی اور اس کی برسی کے موقع پر جہاں کوکی-زومی گروہ ریاست میں سیپریشن ڈے یعنی یومِ علیحدگی کا اہتمام کر رہا ہے، وہیں میتئی گروپ کی تنظیم رابطہ کمیٹی برائے اتحاد منی پور (کوکومی) امپھال میں ایک بڑے عوامی اجتماع کے ذریعے مرکز سے اپنی اجتماعی تشویشات کے اظہار کا ارادہ رکھتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، تشدد کی اس دو سالہ مدت میں اب تک 250 سے زیادہ افراد ہلاک اور ہزاروں بے گھر ہو چکے ہیں۔ نسلی خطوط پر بٹی ہوئی اس ریاست میں تشدد رکنے کے باوجود خوف اور بے یقینی کی فضا اب بھی باقی ہے۔ آخری بار دونوں کمیونٹی کے درمیان شدید جھڑپیں نومبر 2024 میں ہوئی تھیں، جب کہ فروری 2025 میں وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ کے استعفے اور صدر راج کے نفاذ کو ایک اہم سیاسی موڑ سمجھا گیا۔ تاہم زمینی سطح پر ’معمول‘ کی واپسی ابھی بہت دور ہے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، کانگ پوکپی ضلع کے ایک ریلیف کیمپ میں رہنے والی 55 سالہ کمواہ نے بتایا، ’’ہمیں دو ہفتے میں ایک بار راشن ملتا ہے اور دو سال میں صرف تین مرتبہ فی فرد ایک ہزار روپے دیے گئے۔ گھر، ذریعہ معاش اور مستقبل، سب کچھ چھن چکا ہے۔‘‘
اسی کیمپ کی ایک اور خاتون، 60 سالہ ہیکھول کہتی ہیں، ’’اگر واپس جانا ممکن نہیں تو ہمیں مستقل بستی ہی دے دی جائے، جہاں کم از کم ذاتی مکان میں سانس تو لے سکیں۔‘‘انتظامیہ کے مطابق پچھلے تین ماہ میں چند مثبت اقدامات ضرور ہوئے ہیں، جیسے کچھ افراد کی جزوی طور پر پرانی بستیوں میں واپسی۔ ایک افسر نے بتایا، ’’چند سرحدی علاقوں میں واپسی کے امکانات کا جائزہ لیا جا رہا ہے، جہاں سیکورٹی فراہم کی جا سکے۔ کچھ میتئی خاندانوں کو خاموشی سے ان کے پرانے گھروں میں بسایا گیا ہے لیکن ان کی سلامتی کی خاطر ان کی واپسی کو عام نہیں کیا گیا۔‘‘
ریاست میں جاری گروہی کشیدگی اب واضح طور پر مستقل تقسیم کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ کوکی-زومی گروہ جہاں الگ ریاست یا مرکز کے زیرانتظام علاقہ (یونین ٹیریٹری) کا مطالبہ کر رہے ہیں، وہیں میتئی گروپ ریاست کے اتحاد کی وکالت کرتے نظر آتے ہیں۔مرکزی حکومت کی طرف سے شمال مشرقی امور کے مشیر اے کے مشرا کی سربراہی میں حال ہی میں دہلی میں دونوں کمیونٹی کے سماجی نمائندوں کی ملاقات ضرور ہوئی، مگر کوئی ٹھوس نتیجہ نہیں نکل سکا۔ ایک سکیورٹی افسر کے مطابق، ’’ظاہری سکون کے باوجود صورتحال اندر سے اب بھی نازک اور غیر مستحکم ہے۔ اصل حل صرف جامع سیاسی مکالمے سے ہی نکلے گا۔‘‘دو سال مکمل ہونے کے باوجود منی پور میں نسلی اور سماجی تقسیم جوں کی توں برقرار ہے۔ ریلیف کیمپوں میں بسنے والے ہزاروں افراد کے لیے ہر دن بے گھر ہونے کا ایک اور کٹھن باب ہے، جب کہ ریاست میں پائیدار امن کا خواب اب بھی ادھورا ہے۔