نئی دہلی :قیدیوں کو ذات کی بنیاد پر کام دینا غیر آئینی ہے۔چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس جے بی پارڈی والا اور جسٹس منوج مشرا کی بنچ نے آج یہ تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ جیل مینوئل میں موجود ان تمام دفعات کو ختم کیا جانا چاہئے جو اس طرح کے امتیاز کو فروغ دیتے ہیں۔جسٹس چندرچوڑ نے بنچ کی طرف سے کہا کہ مرکزی حکومت کے جیل مینول 2016 میں خامیاں ہیں۔ ان میں ذات کی بنیاد پر قیدیوں کی درجہ بندی پر پابندی لگانی چاہیے۔بنچ نے مہاراشٹرا کے کلیان کی رہنے والی سکنیا شانتا کی درخواست پر یہ فیصلہ سنایا۔ ان کی درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ ملک کی کچھ ریاستوں کے جیل مینوئل میںذات پات کی بنیاد پر امتیاز کو فروغ دیا جاتا ہے۔سپریم کورٹ نے ہدایت د ی کہ قیدیوں کو خطرناک حالات میں گٹر کے ٹینک وغیرہ صاف کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ یہ رواج نوآبادیاتی دور کے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر قوانین برطانوی دور حکومت میں بنائے گئے تھے۔بنچ نے کہا اگر پرائیویٹ افراد کے ذریعہ آرٹیکل 23 (انسانی اسمگلنگ اور جبری مشقت کی ممانعت) کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے تو ریاست اس کی ذمہ دار ہوگی۔ ایسی ذاتوں کے خلاف نفرت، حقارت اور وسیع تعصب نہیں برتا جا سکتا۔بنچ نے جیلوں کے اندر امتیازی سلوک کے مبینہ معاملے میں ازخود نوٹس لیتے ہوئے مقدمہ درج کیا اور عدالت عظمیٰ کی رجسٹری کو ہدایت دی کہ وہ اس معاملہ (جیلوں کے اندر امتیازی سلوک سے متعلق) کو تین ماہ بعد سماعت کیلئے پیش کرے۔عدالت عظمیٰ نے تمام ریاستوں کو اس فیصلے کی تعمیل کی رپورٹ (اس عدالت کے سامنے) پیش کرنے کی بھی ہدایت دی۔سپریم کورٹ نے اس بات پر زور دیا کہ عدالت کو اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ پسماندہ لوگوں کو نقصان نہ پہنچے۔ عدالت نے کہا کہ آئین ایس سی / ایس ٹی کو تحفظاتی امتیاز کے لیے تسلیم کرتا ہے لیکن اس کا استعمال لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے لیے نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ہونا چاہیے اور اس حاشیہ پر رہنے والے لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جانا چاہئے۔بنچ نے کہا کہ قیدیوں کے درمیان اس طرح کا امتیاز نہیں ہو نا چاہئے۔بنچ نے کہا کہ سماج کے پسماندہ لوگوں کو صفائی اور جھاڑو دینے کا کام اور اعلیٰ ذات کے لوگوں کو کھانا پکانے کا کام سونپنا آئین کے آرٹیکل 15 کی خلاف ورزی ہے۔