پٹنہ :پٹنہ ہائی کورٹ کے جسٹس چکرادھری شرن سنگھ، سماجی کارکن محترمہ شلپا شاہ، سکریٹری سماجی بہبود محکمہ کے افسر پریم سنگھ مینا اور الیکشن کمیشن کی برانڈ ایمبیسیڈر مونیکا داس پر مشتمل پینل بہار اسٹیٹ لیگل سروسز اتھارٹی کے آڈیٹوریم میں بیٹھاجس میں خواجہ سراؤں نے اپنے مسائل رکھے۔ ججوں نے نہ صرف ان کے مسائل سنے بلکہ ان کے حل کے لیے سرکاری افسران کو ہدایات بھی دیں۔دوسری جانب الیکشن کمیشن کی برانڈ ایمبیسڈر مونیکا داس کا کہنا تھا کہ خواجہ سراؤں کو معاشرہ حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرے کو چھوڑ کر گھر سے دور رہنا پڑتا ہے۔ لوگ کرائے پر مکان دینے سے انکارکرتے ہیں۔ اگر کوئی مکان کرایہ پر دے تو بھی 2 گنا یا 3 گنا کرایہ وصول کرتا ہے۔ خواجہ سرا برادری پولیس اسٹیشن، تعلیم اور دیگر بہت سی چیزوں سے محروم ہے۔
پروگرام میں شریک تمام ججوں نے خواجہ سراؤں کی ایک ایک بات سنی اور اسے حل کرنے کی یقین دہانی کرائی -پینل میں شامل افراد نے کہا کہ ہم نے پہلی بار آپ کی کمیونٹی سے متعلق مسائل کو بہتر انداز میں سنا ہے۔ کیونکہ ہم جیسے لوگوں کو متعلقہ کمیونٹی کے مسئلے کے بارے میں معلومات نہیں ملتی۔بہت سے ایشوز ہیں، ہم ان پر ضرور کام کریں گے اور بہت سی چیزیں ابھی زیر غور ہیں، جن پر کام جاری ہے، جلد اس پر بھی کوئی نتیجہ نکلے گا۔ خاص طور پر بہار اسٹیٹ لیگل سروس اتھارٹی، جس کی بنیادی توجہ ان خواجہ سراؤں پر ہے جنہیں معاشرے میں حقیر سمجھا جاتا ہے۔ ان کی بہتری کے ساتھ ان کی نشاندہی کرکے ضروری سہولیات فراہم کی جاسکتی ہیں۔ کیونکہ اب بھی ایسی بہت سی چیزیں ہیں۔ جو لوگوں کے سامنے نہیں ہیں۔ اس لیے انہیں لوگوں کے درمیان لانا ضروری ہے-
واضح ہو کہ بہار اسٹیٹ لیگل سروس اتھارٹی کا بنیادی مقصد ہی خواجہ سراؤں کو معاشرے کے مرکزی دھارے سے جوڑنا اور تمام مسائل کو سمجھناہے۔ کیونکہ حکومت کی جانب سے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ لیکن انہیں وہ نہیں مل رہا ہے جو انہیں ملنا چاہئے۔
خواجہ سراؤں کی جانب سے پینل کے سامنے جو شکایات اور مطالبات پیش کئے گئے ،وہ اس طرح ہیں:
-تھانے میں تحریری شکایت کے بعد بھی وہ کارروائی نہیں کرتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ خواجہ سرا ہیں، وہ کیا کر سکتے ہیں۔
-ٹرانس جینڈر عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں کام نہیں ملتا۔ اس لیے وہ مبارکباد یا شادی کی تقریب میں جاتے ہیں۔
-اگر کوئی خواجہ سرا شادی کرنا چاہتا ہے تو ان کے لیے قانون بنایا جائے۔
-اگر کوئی بچہ گود لینا چاہتا ہے تو اسے بھی یہ حق ملنا چاہیے۔
-رہنے کے لیے کوئی رہائش نہیں ہے۔ لوگ کرائے پر کمرے دیتے ہیں لیکن دوگنا کرایہ لیتے ہیں۔
-خواجہ سراؤں کو تعلیم سے محروم رکھا جا رہا ہے۔