نئی دہلی: جمعیۃعلماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کے ذریعہ شروع کی گئی 3 سطحوں پر (سینٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفیکیشن، دہلی ہائی کورٹ، سپریم کورٹ) بروقت قانونی جدوجہد کے نتیجہ میں متنازعہ ہندی فلم ’اودے پور فائلز‘ سے کل ملا کر 61 قابل اعتراض مناظر فلم سے ہٹا دیے گئے ہیں، مولانا مدنی کا سب سے بڑا اعتراض نوپور شرما کے اس بیان پر تھا جو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور امہات المومین کے تعلق سے دیا تھا۔ اب فلم سے یہ پورا منظرنامہ کلی طور پر ہٹا دیا گیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ مولانا مدنی کی طرف سے داخل پٹیشن پر دہلی ہائی کورٹ نے غیر لائنس شدہ اس ٹریلر کا بھی مشاہدہ کیا جسے فلم کے پروڈیوسر نے غیر قانونی طور پر ریلیز کیا تھا۔ اس میں نہ صرف دیوبند کا حوالہ تھا بلکہ نوپور شرما کا وہ قابل اعتراض بیان بھی شامل تھا جو اس نے 2022 میں دیا تھا۔ گزشتہ 10 جولائی کو اپنے ایک حکم نامہ میں دہلی ہائی کورٹ نے فلم کے ٹریلر کے اجرا اور غیر قانونی طور پر اسے ریلیز کرنے کے خلاف قانونی اقدامات کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اس حوالہ سے مولانا مدنی کو یقین ہے کہ حکومت مذکورہ ہدایت کے مطابق فلم پروڈیوسر کے خلاف قانونی کارروائی کرے گی۔ ہر چند کے سنسر بورڈ نے 55 مناظر کو کٹ کرنے کے بعد فلم کو سرٹیفکیٹ دے دیا تھا، لیکن بعد میں مولانا مدنی کے نوپور شرما کے بیان کو لے کر سخت اعتراض کو مرکزی حکومت نے بھی تسلیم کر لیا اور 21 جولائی کو ہی اسے فلم سے نکال دینے کی ہدایت بھی دے دی تھی، مگر اب حکومت کی طرف سے مزید 5 مناظر کو فلم سے نکال دینے کی ہدایت دی گئی ہے۔ یہاں تک کہ فلم کے ساتھ جو اعلان دست برداری جاتا ہے، اس میں بھی ترمیم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں مزید قانونی چارہ جوئی کے نتیجہ میں یعنی 6 اگست 2025 کو ایک تازہ حکم نامہ جاری ہوا ہے جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ نوپور شرما کے بیان سے جڑے ہوئے دوسرے قابل اعتراض مناظر بھی فلم کے پروڈیوسر نے رضاکارانہ طور پر فلم سے ہٹا دیے ہیں۔ بلاشبہ یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔
واضح ہو کہ اس پوری فلم میں مسلمانوں کی شبیہ کو داغدار بنا کر پیش کیا گیا تھا۔ مولانا مدنی نے اس کی سخت مذمت کی تھی اوراس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا آغاز بھی کیا تھا۔ اگرچہ فلم سے اشتعال انگیز اور توہین آمیز مناظر الگ کیے جا چکے ہیں، تاہم یہ توقع تھی کہ حکومت اس فلم کا سرٹیفکیٹ رد کر دے گی، مگر ایسا نہیں ہوا اس سلسلہ میں مولانا مدنی نے کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ فلم سے تمام قابل اعتراض مناظر نہ صرف ہٹا دیے گئے ہیں بلکہ مرکزی حکومت نے ہمارے اعتراض کو درست ٹھہراتے ہوئے کئی دوسرے مناظر کو بھی فلم سے نکالنے کی ہدایت دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں کہ جب فلموں میں مسلمانوں کو غلط ڈھنگ سے پیش کرنے کا ایک ٹرینڈ سا چل پڑا ہے، اس فلم کو لے کر ہوئی قانونی لڑائی اور اس کا ماحصل ایسے فلم سازوں کے لیے ایک سخت تنبیہ ہے جو اس طرح کی فلمیں بنا کر فرقہ پرست طاقتوں کو خوش کرنے کی مذموم خواہش کے تحت ملک کے امن و اتحاد اور فرقہ وارانہ یکجہتی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، ایک بڑا سبق ملے گا اور یہ اس بات کا اعلان بھی ہے کہ اظہارکی آزادی کے نام پر آپ کسی فرد، برادری یا قوم کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچا سکتے۔(پریس ریلیز)