نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں تعلیمی سال 2025-26 کے لیے طلبہ یونین انتخابات کے لیے ووٹنگ منگل کو پُرامن انداز میں مکمل ہو گئی۔ پورے دن کی گہما گہمی، نعروں، ڈھول کی تھاپ اور پوسٹروں کے درمیان طلبہ نے بڑھ چڑھ کر اپنے ووٹ ڈالے۔ اس بار کل 67 فیصد ووٹنگ ریکارڈ کی گئی، جو گزشتہ سال کے 70 فیصد کے مقابلے میں کچھ کم رہی، تاہم دلچسپی میں کوئی کمی نہیں دیکھی گئی۔
انتخابی عمل صبح 9 بجے شروع ہونا تھا مگر پولنگ ایجنٹوں کی تاخیر کی وجہ سے ووٹنگ تقریباً 10 بجے شروع ہوئی۔ دوپہر 1 بجے تک پہلا سیشن چلا، اس کے بعد 2:30 سے شام 5:30 بجے تک دوسرا مرحلہ جاری رہا۔ ووٹوں کی گنتی رات 9 بجے سے شروع ہوگی اور 6 نومبر کو نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔
اس بار تقریباً 9043 طلبہ ووٹ ڈالنے کے اہل تھے۔ انہوں نے چار مرکزی عہدوں- صدر، نائب صدر، جنرل سکریٹری اور جوائنٹ سکریٹری کے لیے 20 امیدواروں میں سے اپنی پسند کا انتخاب کیا۔ اس کے علاوہ مختلف اسکولوں کے لیے 42 کونسلر نشستوں پر بھی ووٹنگ ہوئی۔انتخابات میں اصل مقابلہ روایتی طور پر بائیں بازو کے اتحاد اور آر ایس ایس سے وابستہ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) کے درمیان رہا لیکن اس بار کانگریس کی طلبہ تنظیم این ایس یو آئی نے لڑائی کو سہ رخی شکل دے دی ہے۔
بائیں بازو کے اتحاد میں آل انڈیا اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (آئیسا)، اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا (ایس ایف آئی) اور ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (ڈی ایس ایف) شامل ہیں۔ ان کے مشترکہ پینل نے صدر کے لیے ادیتی مشرا، نائب صدر کے لیے کِجھاکوٹ گوپیکا بابو، جنرل سکریٹری کے لیے سنیل یادو اور جوائنٹ سکریٹری کے لیے دانش علی کو میدان میں اتارا ہے۔
دوسری جانب اے بی وی پی نے صدر کے لیے وکاس پٹیل، نائب صدر کے لیے تانیا کماری، جنرل سکریٹری کے لیے راجیشور کانت دوبے اور جوائنٹ سکریٹری کے لیے انوج کو امیدوار بنایا ہے۔ این ایس یو آئی نے صدر کے عہدے کے لیے وکاش بشنوئی کو میدان میں اتارا ہے جنہوں نے اسکالرشپ، تحقیقی معاونت اور طلبہ بہبود کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے۔


















