نئی دہلی: ہلدوانی تشدد معاملے میں پولیس زیادتی کے شکار 22 ملزمین کی ڈیفالٹ ضمانت عرضی پر آج اتراکھنڈ حکومت کی 2 رکنی بنچ نے فیصلہ سناتے ہوئے ان کی ضمانت پر رِہائی کا حکم صادر کر دیا۔ عدالت نے فریق استغاثہ کے ذریعہ مقرر مدت کار میں ملزمین کے خلاف جانچ مکمل کر فرد جرم داخل نہ کرنے کے سبب تکنیکی بنیاد پر ان کی ڈیفالٹ ضمانت منظور کی۔
حال ہی میں ہائی کورٹ نے ملزمین کی ضمانت عرضی پر سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا، جس پر آج ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا۔ ان معاملوں کی پیروی جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء ہلدوانی کے ذریعہ کی جا رہی ہے۔ ملزمین فروری 2024 سے جیل میں بند تھے، جبکہ ہلدوانی سیشن کورٹ نے 3 جولائی 2024 کو ان کی ڈیفالٹ ضمانت عرضی خارج کر دی تھی۔
اتراکھنڈ ہائی کورٹ کی 2 رکنی بنچ، جو جسٹس پنکج پروہت اور جسٹس منوج کمار تیواری پر مشتمل ہے، نے آج فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ذیلی عدالت کا جانچ ایجنسی کو ملزمین کے خلاف جانچ پوری کرنے کی اجازت دینے والا فیصلہ غیر قانونی ہے اور اسے خارج کیا جاتا ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ یو اے پی اے قانون کے تحت جانچ ایجنسی کو مقررہ مدت کار میں جانچ مکمل کرنی ہوتی ہے، لیکن اس معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔ اس لیے ملزمین کی ڈیفالٹ ضمانت منظور کی جاتی ہے۔
سپریم کورٹ کی سینئر ایڈووکیٹ نتیا راما کرشنن نے ملزمین کی طرف سے بحث کی تھی۔ جمعیۃ علما کی قانونی امداد کمیٹی کی پیروی کے نتیجہ کار پہلے مرحلہ میں 50 اور دوسرے مرحلہ میں 22 ملزمین کی ضمانت ہائی کورٹ سے منظور ہوئی ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو قابل استقبال قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے، کیونکہ طے مدت میں فرد جرم داخل نہ کرنے کے سبب ملزمین کو ضمانت دی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم ایک سال بعد 22 اشخاص کی ضمانت پر رِہائی کا استقبال کرتے ہیں۔ ملزمین کے کنبوں کے لیے یہ بلاشبہ خوشی کا موقع ہے، جو طویل انتظار کے بعد میسر ہوا ہے۔
اس دوران مولانا مدنی نے اس بات پر گہری مایوسی ظاہر کی کہ ایسے معاملوں میں پولیس اور جانچ ایجنسیاں قصداً رخنہ اندازیاں پیدا کرتی ہیں اور فرد جرم داخل کرنے میں بہانہ بازی اختیار کرتی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ قانون میں یہ سہولت ہے کہ 90 دنوں کے اندر فرد جرم داخل کر دی جانی چاہیے، لیکن ایسے معاملوں میں اس اصول کی خلاف ورزی کر حقوق انسانی کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں، جیسا کہ اس معاملے میں بھی ہوا۔ جمعیۃ علماء ہند کے چیف مولانا ارشد مدنی نے مزید کہا کہ ایسا قصداً کیا جاتا ہے تاکہ ملزمین کو جلد ضمانت نہ مل سکے اور انھیں زیادہ وقت تک جیل میں رکھا جا سکے۔
مولانا ارشد مدنی ہلدوانی تشدد معاملہ کے تعلق سے کہا کہ اس تشدد میں پولیس کی غیر قانونی فائرنگ کے سبب 7 بے قصور افراد کی موت ہوئی تھی، لیکن اس تعلق سے کوئی بات نہیں کرتا۔ یہ حقوق انسانی کی سنگین خلاف ورزی کا معاملہ ہے اور حقوق انسانی کی تنظیموں کی خاموشی بھی ایک بڑا سوال ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ہمیں بے حد خوشی ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی قانونی امداد کے سبب اتراکھنڈ ہائی کورٹ سے ان نوجوانوں کی ضمانت پر رِہائی ممکن ہو سکی ہے۔ لیکن یہ افسوسناک ہے کہ پولیس اور دیگر جانچ ایجنسیاں ایسے معاملوں میں غیر جانبداری اور ایمانداری کا مظاہرہ کرنے کی جگہ تعصبانہ رویہ اختیار کرتی ہیں۔