ترکیہ کے لگاتار تیسری مرتبہ چنے گئے صدر طیب اردگان جو کہ اپنے اقتدار کی تیسری دہائی میں داخل ہوگئے ہیں۔ انہوںنے اپنی جیت پر تقریر کرتے ہوئے کہاکہ یہ نہ صرف ان کی بلکہ ترکی کے 85ملین شہریوں کی جیت ہے۔ انہوںنے اس موقع پر ایک اہم بات بھی کہی کہ دو مرحلے میں ہونے والے کانٹے کے الیکشن میں کوئی بھی تشدد پسند جماعت کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ ان کا اشارہ کرد اور کردوں کی حمایت والی پارٹیوں کی ناکام کی طرف تھا۔
مغربی ممالک اور عالمی مین اسٹریم میڈیا کی تمام قیاس آرائیوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے ترکیہ کے عوام نے رجب طیب اردگان کو شاندار جیت سے ہمکنار کردیا، پوری دنیا کی نظر میں ان انتخابات پر مرکوز تھیں اور ناٹو اور یوروپی ممالک کے حکمرانوں کو لگ رہاتھا کہ اس مرتبہ ترکیہ میں طیب اردگان کو شاید کامیابی نہ مل پائے ۔ ان قیاس آرائیوں کو اگر مکمل طورپر رد نہیں کیاگیا مگر واقعی میں اس مرتبہ الیکشن مشکل تھا اور عالمی ذرائع ابلاغ ان مشکل حالات وسخت مقابلہ کو نمک مرچ لگا کر بڑھا چڑھا کر پیش کررہے تھے۔ اہل مغرب میں ایشوز اور واقعات کو نمک مرچ لگا کر پیش کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ان ہی ہتھکنڈوں او رحربوں سے کئی مرتبہ ان طاغوتی طاقتوں نے معربی ایشیا، افریقہ اور ایشیائی ممالک میں تختہ پلٹنے ہیں طیب اردگان ترکیہ کے ایسے واحد سیاستدان ہیں جنہوںنے کئی بغاوتوں اور کو ناکام کیا ہے اور گزشتہ بیس سال کے دور اقتدار میں خانگی اور بیرونی محاذوں پر چیلنجز کا سامنا کیا ہے، اب ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج قدرتی آفت زلزلہ سے برباد ہونے والوں کی بازآبادکاری کا تھا۔ اس کے علاوہ شام سے جان بچا کر آنے والے مہاجرین کی بازآبادیا ان کو واپسی ان کے وطن بھیجنے کا ایشوبھی تھا، مگر اس مرتبہ الیکشن میں ایک اہم ایشو کردوں کا بھی تھا جو باز آبادکاریطویل عرصہ سے ایک علیحدہ اور خود محتار ملک کا مطالبہ کررہے ہیں اور ترکیہ میں بدترین دہشت گردانہ کاررائیوں کے لیے کردوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔
کئی مرتبہ ترکیہ کے قلب میں دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر جانی ومالی نقصان ہوچکا ہے، جو خود حکمراں جماعت اے کے پی کردوں کی پالیسی کو لے کر بہت سخت موقف اختیار کرتی رہی ہے۔ جبکہ مغربی ممالک مغربی ایشیا میں کردو ںکو ہر ممکن عسکری، سفارتی اور اقتصادی وغیرہ مدد فراہم کرتے رہے ہیں۔ شام ، عراق اور ایران میں کردوں کی اچھی خاصی آبادی سے شام اور عراق میں کرد ہر دور اقتدار میں سیاسی خود مختاری اور علیحدہ ملک کے لیے سر اٹھا رہے ہیں او رامریکہ دونوں ملکوں میں ان کو تحفظ فراہم کرتا رہا ہے، امریکہ کا دعویٰ ہے کہ آئی ایس آئی ایس کے دہشت گردوں سے مقابلہ کررہے ہیں ۔ لہٰذا انتہا پسند مسلم دہشت گرد عسکری گروپوں کا مقابلہ کرنے کے کے لیے امریکہ کردو اور کردوں کی نگرانی میں کام کرنے والے جنگجوئوں کی مدد کررہا ہے اور فوجی عزائم کو ان کے ذریعہ پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کررہا ہے۔
ترکی کے صدارتی انتخابات جہاں اس معاشرے میں بڑی گرم جوشی کے ساتھ لڑے جا رہے تھے وہیں بین الاقوامی اہمیت کے حامل کئی معاملوں پر عوام میں اپنی رائے دی۔ طیب اردگان نے مغربی ایشیا کے ممالک سعودی عرب، یو اے ای مصر وغیرہ کے ساتھ جو بہتر تعلقات قائم کیے ہیں اس کا ترکی میں خیر مقدم ہوا ہے۔ یہ بات ان نتائج سے ظاہر ہوگئی ہے۔ ترکی کے شہری جہاں کہیں بھی مقیم ہیں وہاں سے ان کو اپنے ملک کے پارلیمنٹ اور صدر کے انتخاب پر ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے۔ مغربی ممالک میں اردگان کے حریف کمال خلیق اوگلو کو اچھی خاصی حمایت ملی ہے جبکہ مسلم اور عرب ملکوں میں رہنے والے ترک لوگوں نے طیب اردگان کو حمایت دی ہے۔ مغربی ممالک میں خاص طور پر اور نارتھ امریکہ میں کمال خلیق اوگلو کو 80فیصد ووٹ ملے ہیں۔ اسی طرح برطانیہ جنوبی اور مشرقی یوروپ میں رہنے والے ترکوں نے ان کو اپنی پہلی پسند قرار دیا ہے۔
بہر کیف ترکیہ کے الیکشن سے جو اعدادوشمار سامنے آہیں ان سے لگتاہے کہ غیر ممالک میں مقیم ترکیہ کے شہریوں نے اس الیکشن میں دل کھول کر طیب اردگان کی مدد کی ہے۔ یہ اس الیکشن کا سب سے دلچسپ پہلو ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس وقت ترکیہ کے شہریوں کی سب سے بڑی تعداد جرمنی، فرانس، نیدر لینڈ، آسٹریلیا اور برطانیہ میں رہتی ہے۔ ترکیہ کی حکومت نے 60ملکوں میں 123سفارتی دفاتر میں ترکیہ کے شہریوں کے لیے پولنگ کے لیے مراکز بنائے ہوئے تھے۔
مذکورہ بالا یوروپی ممالک میں ترکیہ کے لوگوں کی آبادی اس قدر ہے کہ جرمن کی مقامی آبادی اور دیگر ممالک کے لوگوں کے درمیان پرخاش بعض اوقات تصادم کا سبب بن جاتی ہے۔ بیرون ملک میں رہنے والی ترکی کی آبادی اپنے ملک کے صدور اور ممبران پارلیمنٹ دونوں کے لیے ووٹ کرتی ہے اور ساتھ میں جرمنی کے سیاسی فیصلوں میں بھی اثر انداز ہوتی ہے ، اس لیے مقامی سیاستدانوں کو ترکیہ کے شہروں کو اپنے ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔ مگر یہ پرخاش بھی منظر عام پر آجاتی ہے ، ترکیہ کے شہری جرمن افسران اور حکمرانوں کو بازیوں سے جوڑتے ہیں جرمنی حکام نے ترکیہ کے کئی شہریوں کو بغیر الزامات عائد کیے گرفتار کررہا ہے۔ اس میں ایک سینئر صحافی ہے اس صحافی کا نام دانش یوسل ہے ان کو ایک سال سے زیادہ عرصہ تک قید میں رکھا گیا۔ اس سال مارچ میں جرمن حکام نے بتایا تھا کہ اس کے چار شہری ابھی بھی ترکیہ کی حراست میں ہیں۔ ترکیہ کے چار ملین شہری جرمنی میں مقیم ہیں ۔
جرمن کے ماہرین اور ناقدین کا کہنا ہے کہ اتنی ترکی آبادی اس لیے انگلیلا مرکل ذمہ دار ہیں ۔ انہوںنے بڑی فیاضی کا مظاہرہ کیا تھا اور ترکیہ کے لوگوں کی اتنی بڑی آبادی کی جرمنی میں موجودگی کے پس پشت ہی جو وہاں سیاسی سمت طے کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔جرمن لیڈر انگیلا مرکل بنائی جاتی ہیں۔ فرانس میں بھی ترک لوگو ںکی بڑی تعداد مقیم ہے۔اردگان کو سب سے زیادہ ووٹ جرمنی ، فرانس اور نید ر لینڈ مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ میں مقیم ہیں۔ جرمنی میں اردگان کو 67فیصد ووٹ ملے۔ لبنان میں کل ووٹروں میں 95فیصد اور 95اردن میں مقیم 90فیصد اور مصر میں مقیم 78فیصد لوگوں نے موجودہ اور نومنتخب صدر کو ووٹ دیا۔ بین الاقوامی سطح پر بیرون ممالک اردگان کو 59.4اور کمال خلیق ادگوکو 40.6فیصد ووٹ ہے۔ یعنی طیب اردگان کو بین الاقوامی سطح پر مقبولیت حاصل ہے۔ طیب اردگان کی خارجہ پالیسی جہاں ان کو بین الاقوامی سطح پر مقبول بنا رہے وہی ان کے اقتصادی مسائل کا مقابلہ کرنے میں مدد کر رہی ہے۔ وہ روس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب، ے واے ای سے تعاون حاصل کررہے ہیں اوران کا یہ اتحاد ترکی کو اہم مقام دلانے میں کافی حد تک اہم رول کررہا ہے۔