این سی ای آر ٹی کی 12ویں جماعت کی پولیٹیکل سائنس کی نئی کتاب میں کئی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ سب سے بڑی تبدیلی ایودھیا تنازعہ کے موضوع پر ہوئی ہے اور کتاب میں بابری مسجد کا ذکر تک نہیں کیا گیا ہے۔ مسجد کا نام لکھنے کے بجائے اسے ’تین گنبدوں والا ڈھانچہ‘ بتایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ موضوع کو چار کے بجائے دو صفحات میں سمیٹا گیا ہے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ایودھیا تنازعہ کی معلومات دینے والے پرانے ورژن کو بھی ہٹا دیا گیا ہے۔ اس میں گجرات کے سومناتھ سے ایودھیا تک بی جے پی کی رتھ یاترا، کارسیوکوں کا کردار، 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کی شہادت کے بعد فرقہ وارانہ تشدد، بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں صدر راج اور ایودھیا میں ہونے والے واقعات پر بی جے پی کا اظہار افسوس شامل ہے۔
بارہویں جماعت کی پولیٹیکل سائنس کی پرانی کتاب میں بابری مسجد کو 16ویں صدی کی مسجد کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا جسے مغل بادشاہ بابر کے جنرل میر باقی نے تعمیر کیا تھا۔ اب نئی کتاب میں اس کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے، ’تین گنبدوں والا ڈھانچہ 1528 میں شری رام کی جائے پیدائش پر بنایا گیا تھا لیکن اس ڈھانچے کے اندرونی اور بیرونی حصوں پر ہندو علامات و باقیات کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔
ایودھیا تنازعہ کا ذکر کرنے والی پرانی کتاب میں فیض آباد (اب ایودھیا) ضلع عدالت کے حکم پر فروری 1986 میں مسجد کے تالے کھولے جانے کے بعد ’دونوں طرف سے‘ محاذ آرائی کی بات کی گئی تھی۔ اس میں فرقہ وارانہ تناؤ، سومناتھ سے ایودھیا تک رتھ یاترا، دسمبر 1992 میں رام مندر کی تعمیر کے لیے سویم سیوکوں کے ذریعے کی کار سیوا، مسجد کی شہادت اور اس کے بعد جنوری 1993 میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کا ذکر کیا گیا تھا۔ پرانی کتاب میں بتایا گیا تھا کہ کیسے بی جے پی نے ایودھیا میں ہوئے واقعات پر افسوس کا اظہار کیا اور سیکولرازم پر سنجیدہ بحث کا ذکر کیا۔مذکورہ بالا باتوں کو نئی کتاب میں ایک نئے پیراگراف سے تبدیل کر دیا گیا ہے۔ نئی کتاب میں لکھا ہے کہ 1986 میں تین گنبدوں والے ڈھانچے کے حوالے سے ایک اہم موڑ آیا، جب فیض آباد (اب ایودھیا) کی ضلعی عدالت نے ڈھانچے کے تالے کھولنے کا حکم دیا، جس سے لوگوں کو وہاں عبادت کرنے کی اجازت دی گئی۔ یہ تنازعہ کئی دہائیوں سے چل رہا تھا کیونکہ ایسا مانا جاتا ہے کہ تین گنبدوں والا ڈھانچہ ایک مندر کو منہدم کرنے کے بعد شری رام کی جائے پیدائش پر تعمیر کیا گیا تھا۔