نئی دہلی: سپریم کورٹ نےپیرکو اسکول کی پرنسپل کی ہدایت پرسات سالہ مسلم بچے کو ہم جماعتوں کے ذریعے تھپڑ مارنے کے واقعےکی تحقیقات کے لیے ایک سینئر آئی پی ایس افسرکی تقرری کی ہے۔عدالت عظمیٰ نے اس واقعہ کو ’سنگین اور تشویشناک‘ قرار دیتے ہوئے یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی حکومت کو ہدایت دی کہ وہ اس واقعے میں ملوث بچے اور اس کے باقی ہم جماعتوں کے لیے کونسلنگ سیشن منعقد کرے۔ عدالت نے ریاستی حکومت کو تعمیل رپورٹ پیش کرنے اور بچے کی تعلیم کی پوری ذمہ داری لینے کی ہدایت کی۔
اس معاملے میں ریاستی حکومت کے سخت رویے کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے سوال کیا کہ متاثرہ کے والد کے اس بیان کا کہ اس کے بچے کو اس کی مذہبی شناخت کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا تھا، ایف آئی آر کاپی میں کیوں ذکر نہیں کیا گیا۔یہ معیاری تعلیم کا معاملہ ہے، جس میں حساس تعلیم بھی شامل ہے۔” عدالت نے مزید کہاکہ "یہ یوپی حکومت کی جانب سے تعلیم کے حق کے قانون کی دفعات کی تعمیل کرنے میں ناکامی کا معاملہ ہے، جو معیار کی فراہمی سے متعلق ہے۔ 14 سال تک کے بچوں کے لیے مفت اور لازمی تعلیم ذات پات، نسل یا جنس کی بنیاد پر کسی امتیاز کے بغیردی جانی چاہئے۔
یہ واقعہ اس وقت سامنے آیا جب ایک سوشل میڈیا اس واقعے کا ویڈیو وائرل ہوگیا۔ویڈیو میں ایک مسلم بچے کواس کے ہم جماعت بچے نہ صرف تھپڑ ماررہے ہیں بلکہ پرنسپل زور سے مارنے کی ہدایت دے رہی ہے ‘۔شروع میں 60 سالہ خاتون نے کہا کہ وہ اس فعل پر ’شرمندہ نہیں‘ ہیں۔ لیکن جیسے ہی اس واقعے نے غم و غصے کو جنم دیا، اس نے ہاتھ جوڑ کر ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ مبینہ ویڈیو کو ‘فرقہ وارانہ شکل دی گئی ہے ۔پرنسپل نے کہا کہ "میں ہاتھ جوڑ کر قبول کرتی ہوں کہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے۔ لیکن میرے ذہن میں ہندو مسلم تقسیم نہیں تھی۔ بہت سے مسلم طلباء کے والدین سکول کی فیس برداشت نہیں کر سکتے۔ میں انہیں مفت پڑھا تی ہوں، میرا مسلمان بچوں پر تشدد کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔