نئی دہلی: آج جماعت اسلامی ہند کی جانب سے منعقدہ پریس کانفرنس میں نائب امیر جماعت اسلامی ہند پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ منی پور میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ سے 65 ہزار افراد بے گھر ہوچکے ہیں جن میں 14 ہزار بچے ہیں۔ ان میں سے اکثر عارضی کیمپوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ تشدد کے دوران 198 افراد کی اموات ریکارڈ کی گئی۔ جہاں تک معاشی نقصان کی بات ہے توفی الوقت اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
جماعت اسلامی کے وفد کے منی پور دورے کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ وفد نے محسوس کیا کہ ریاست کو نسلی بنیادوں پر تقسیم کردیا گیا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ وادی کے لوگ پہاڑی علاقوں میں نہیں جاسکتے اور نہ ہی پہاڑی لوگ وادی میں۔ فسادیوں نے مکانات اور کاروباری اداروں کو نسلی بنیاد پر کہیں جزوی تو کہیں مکمل طور پر نقصان پہنچایا ہے۔منی پور میں پھوٹنے والا پرتشدد فساد کا ہنوز کوئی حل نہیں نکلا ہے۔ وزیر اعظم نے ابھی تک ریاست کا دورہ نہیں کیا اور نہ ہی اس سلگتے ہوئے مسئلے پر پارلیمنٹ میں کوئی بحث ہوئی ہے۔ یہ تمام المناک واقعات 3 مئی کو چورا چند پور کی ریلی کی وجہ سے وقوع پذیر ہوئے۔ یہاں ضلع تھوبل میں 4 مئی کو قبائلی خواتین کو برہنہ پریڈ کرانے کا ایک دل دہلادینے والا واقعہ ویڈیو سوشل میڈیا پر سامنے آیاجس کا سپریم کورٹ آف انڈیا نے از خود نوٹس لیا اور مرکزی اور ریاستی دونوں حکومتوں کو الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا کہ وہ یا تو مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں یا ایک طرف ہٹ جائیں اورعدلیہ کو کارروائی کرنے کی اجازت دیں۔ عدالت کے اس سخت رویے سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت، ریاست میں حالات کو معمول پر لانے میں ناکام رہی۔ میڈیا نے وہاں کی صورتحال پر مسلسل اپنی توجہ مرکوز رکھی جس کے نتیجے میں حکومت کوگنہگاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا وعدہ کرنا پڑا۔ بہر کیف مہینوں سے جاری اس تشدد نے ریاست کی دو کمیونٹی ’میتئی‘ اور’کوکی‘کے بیچ تقسیم کی ایک واضح لکیر کھینچ دی ہے۔
تعلیمی اداروں میں اسلاموفوبیا کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ہند ملک کے تعلیمی اداروں میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مسلم، دلت اور قبائل سے تعلق رکھنے والے طلباء شدید قسم کے امتیازی سلوک کا نشانہ بنتے ہیں جس کی حالیہ مثال اترپردیش کے مظفر نگر ضلع میں نیہا پبلک اسکول میں دیکھنے کو ملی جہاں ایک مسلمان بچے کو ہم جماعت طلباء سے پٹوایا گیا۔ اس کے علاوہ کلاس روم میں بیٹھے ہوئے استاد نے دیگر مسلم طلباء کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کئے۔ اب سے پہلے اسلامو فوبیا کا یہ زہر شمالی ہند تک محدود تھا، مگر اب آہستہ آہستہ جنوبی ہندوستان میں بھی پھیل رہا ہے۔ ایسی خبریں سامنے آرہی ہیں کہ جن ریاستوں میں حجاب پر پابندی نہیں ہے، وہاں بھی مسلم طالبات کو امتحانات کے دوران حجاب پہننے سے روکا جارہا ہے۔ حال ہی میں تمل ناڈو میں ایک 27 سالہ مسلم لڑکی کو ہندی چیپٹر کا امتحان دینے سے پہلے حجاب اتارنے کو کہا گیا۔ گزشتہ سال کرناٹک میں حکومت کے زیر انتظام پری یونیورسٹی کالجوں نے اسکول یونیفارم پالیسی کی خلاف ورزی کا حوالہ دیتے ہوئے حجاب پہننے پر پابندی عائد کردی تھی۔ اس پابندی کی وجہ سے بہت سی مسلم طالبات اپنے علاقے میں پرائیویٹ کالج نہ ہونے یا ان کی فیسیں زیادہ ہونے کے سبب تعلیم ترک کردیں۔ اسی طرح دہلی کے ایک سرکاری اسکول کے ٹیچر نے کلاس روم میں خانہ کعبہ اور قرآن پاک کے بارے میں توہین آمیز ریمارکس کئے۔ جماعت اسلامی ہند کو لگتا ہے کہ ملک میں پھیلی ہوئی نفرت کا ماحول اسکولوں اور کالجوں میں داخل ہوچکا ہے۔ اقتدار کے اعلیٰ عہدوں پرفائز افراد کے ذریعہ اپنائی گئی خاموشی کی پالیسی، مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور اسلاموفوبیا کی کارروائیوں کے خلاف بولنے سے بچنے کا رویہ، ہمارے ملک کے سماجی تانے بانے پر منفی اثرات مرتب کررہا ہے جس کی وجہ سے مذہب کے نام پر عدم تحمل اور پولرائزیشن کی صورتحال جنم لے رہی ہے۔ جماعت چاہتی ہے کہ حکومت تعلیمی اداروں، اسکولوں اور کالجوں کے کیمپس میں تیزی سے پھیلنے والے اسلاموفوبیا کو ایک سماجی برائی مان کر اس کے خاتمے کے لئے مناسب قوانین تیار کرے۔ مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اکثریتی برادری میں مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں جو بھی غلط فہمیاں ہیں، انہیں دور کرنے کی کوششیں کریں۔
نئی دہلی میں جی 20 سربراہی اجلاس جماعت اسلامی ہند ستمبر 2023 میں نئی دہلی میں جی 20 کے اجلاس میں شرکت کرنے والے وفود کا خیر مقدم کرتی ہے۔ اس سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنا ہم سب ہندوستانیوں کے لئے شان اورفخر کی بات ہے۔ اس سربراہی اجلاس کے’لوگو‘ میں ہندوستانی ثقافت کا مشہور نعرہ ”واسو دھیوا کٹمبکم“ کے علاوہ ’ایک زمین، ’ایک خاندان‘، ’ایک مستقبل“ کی درجہ بندی، کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ جی 20 کی میزبانی کرنے سے ہندوستان کے بڑھتے ہوئے معاشی اثرو رسوخ، آب و ہوا کی کارروائی کے لئے اس کی مضبوط وکالت، اس کی اسٹریٹجک اہمیت، عالمی صحت کی دیکھ بھال میں اس کا کردار اور گلوبل ساؤتھ کی آواز بننے کو نمایاں کرتا ہے۔ تاہم کچھ اہم انڈیکس جو عالمی سطح پر ہماری سماجی و اقتصادی درجہ بندی کا تعین کرتے ہیں، بہت خراب ہیں۔ لہٰذا ہمیں مختلف انڈیکس جیسے ڈیموکریسی انڈیکس، ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس، گلوبل ہنگر انڈیکس، گلوبل فوڈ سیکورٹی انڈیکس، ہیومن فریڈم انڈیکس، ایز آف ڈوئنگ بزنس انڈیکس، کرپشن پرسیپشن انڈیکس، ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس، وغیرہ میں اپنی رینکنگ کو بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہئے۔ حکومت ہماری دولت میں عدم مساوات کو کم کرنے، مذہبی اقلیتوں کے تحفظ و صحت عامہ اور تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے اپنی کوششیں تیز کرے۔
پریس کانفرنس میں نیشنل سکریٹری مولانا شفیع مدنی، میڈیا نیشنل سکریٹری کے کے سہیل اور ‘انڈیا ٹوماروکے چیف ایڈیٹر سید خلیق احمد بھی موجود تھے ۔