جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وقف ترمیمی بل 2024 پر جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی (JPC) کے جانبدارانہ رویے پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا، “وسیع پیمانے پر عوامی مخالفت، لاکھوں اعتراضات اور تحفظات کے باوجود یہ بل آگے بڑھا دیا گیا، جس سے مشاورتی عمل کو بے معنی بنا دیا گیا ہے۔ یہ بل وقف ایکٹ 1995 میں بڑی تبدیلیاں کرتا ہے اور وقف جائیدادوں کے انتظام میں حکومت کی مداخلت کو بڑھاتا ہے۔ ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ وقف جائیدادیں حکومت کی ملکیت نہیں بلکہ مذہبی امانتیں ہیں۔ وقف کے نظام کو کمزور کرنے یا اس پر ریاستی کنٹرول بڑھانے کی کوئی بھی کوشش ناقابل قبول ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس بل کو واپس لے اور موجودہ وقف قوانین کے مؤثر نفاذ پر توجہ دے تاکہ مسلم ورثے اور اداروں کے تحفظ کویقینی بنایا جا سکے۔ ہم ان نام نہاد سیکولر جماعتوں سے بھی مایوس ہیں جنہوں نے پارلیمنٹ میں اس بل کی حمایت کی۔ ہم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر مسلم تنظیموں کی جانب سے اس قانون کو آئینی، قانونی، جمہوری اور پُرامن طریقے سے چیلنج کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے 13 مارچ کو جنتر منتر پر احتجاج کی کال کی مکمل تائید کرتے ہیں اور تمام انصاف پسند شہریوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بڑی تعداد میں اس احتجاج میں شریک ہوں۔”
پروفیسر سلیم انجینئر نے “ہندوستان میں بڑھتی ہوئی معاشی عدم مساوات” کے موضوع پر بات کرتے ہوئے انڈس ویلی کی سالانہ رپورٹ 2025 کا حوالہ دیا اور کہا، “یہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ ملک کی مجموعی دولت کا بڑا حصہ 10 فیصد امیر طبقے کے پاس ہے، جبکہ 50 فیصد غریب طبقہ بنیادی ضروریات کے لیے بھی جدوجہد کر رہا ہے۔ دولت سرمایہ داروں اور شہری اشرافیہ کے درمیان مرکوز ہورہی ہے جبکہ کمزور طبقات مزید کمزور ہورہے ہیں۔ انجینئر سلیم نے کہا کہ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ غربت کے خاتمے اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کو ترجیح دے، جس کے لیے ترقی پسند ٹیکس نظام، سماجی فلاحی منصوبے اور بنیادی سہولیات تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے پالیسی ترامیم کی ضرورت ہے۔”
“مذہبی اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ واقعات اور نفرت انگیز جرائم” کے حوالے سے جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر نے کہا، “ہم اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد اور فرقہ وارانہ جرائم کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں دو افراد کی سرعام تذلیل اور پولیس حراست میں تشدد، راجستھان میں پولیس چھاپے کے دوران ایک نومولود بچی کی دردناک موت اور مہاراشٹر کے چکاہلی کُدالواڑی علاقے میں دکانوں کی منظم مسماری جیسے واقعات، ریاستی اداروں کے جانبدارانہ اور غیر انسانی رویے کو ظاہر کرتے ہیں۔ انجینئر سلیم نے مزید کہا کہ مسلمانوں کو سیاسی مقاصد کے لیے بدنام کیا جا رہا ہے۔ ہم حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ آئین کا احترام کریں اور سب کو انصاف فراہم کریں۔ ہندوستان کے عوام کو فرقہ وارانہ تقسیم اور فسطائیت کے خطرے کے خلاف مزاحمت کرنی چاہیے۔ ‘تنوع میں وحدت’ ہمارا قومی شعار ہے، اور تمام شہریوں کو جمہوری اور آئینی اقدار کی بحالی کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ ایک منصفانہ معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔”