نئی دہلی: اتراکھنڈ میں نافذ یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کے خلاف جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے گزشتہ دنوں اتراکھنڈ ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی گئی تھی۔ آج جمعیۃ کی طرف سے سینئر وکیل سبل اور ایڈووکیٹ آن ریکارڈ فضیل احمد ایوبی اتراکھنڈ ہائی کورٹ کی خصوصی بنچ کے سامنے پیش ہوئے۔ اس خصوصی بنچ میں چیف جسٹس جی نریندر اور جسٹس آلوک مہرا شامل ہیں۔
سینئر ایڈووکیٹ سبل نے آج بنچ کے سامنے دو نکات رکھے۔ پہلا، لسٹر 3 انٹری 5 کے تحت کسی بھی ریاستی حکومت کو یکساں سول کوڈ بنانے اور نافذ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے، یہاں تک کہ آرٹیکل 44 بھی کسی ریاستی حکومت کو ایسا قانون بنانے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ سینئر ایڈووکیٹ سبل نے کہا کہ جو قانون لایا گیا ہے وہ واضح طور سے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے جو انھیں آئین کے آرٹیکل 14، 19، 21 اور 25 میں دیے گئے ہیں۔
ایڈووکیٹ سبل نے عدالت سے یو سی سی پر اسٹے لگانے کی گزارش بھی کی۔ اتراکھنڈ حکومت کے وکیل نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے جواب داخل کرنے کا وقت مانگا۔ اس پر عدالت نے ریاستی حکومت کو اپنا جواب داخل کرنے کی ہدایت دی۔ سبل کی گزارش پر آئندہ سماعت یکم اپریل 2025 طے ہوئی ہے۔ اس دوران سینئر ایڈووکیٹ سبل نے چیف جسٹس سے یہ بھی کہا کہ اگلی تاریخ پر ہم اسٹے پر ہی بحث کریں گے۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ چونکہ یو سی سی کے کچھ التزامات میں سزا اور جرمانے کا بھی انتظام ہے، اس لیے اس پر اسٹے لگانا ضروری ہے۔ اس معاملے میں چیف جسٹس نے کہا کہ اگر اس دوران ایسا کوئی معاملہ سامنے آتا ہے تو ہم آپ کو فوراً عدالت کے نوٹس میں لانے کی اجازت دیتے ہیں۔ بنچ نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی اس قانون سے ذاتی طور پر متاثر ہوتا ہے، یا کسی کے خلاف اس قانون کے تحت کوئی کارروائی ہوتی ہے تو وہ بنچ کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ اتراکھنڈ اسمبلی میں یکساں سول کوڈ کو منظوری ملنے کے تقریباً ایک سال بعد 27 جنوری 2025 کو وزیر اعظم مودی کی موجودگی میں اسے رسمی طور سے نافذ کر دیا گیا۔ اس طرح اتراکھنڈ یو سی سی نافذ کرنے والی پہلی ریاست بن گیا۔ اس عمل پر جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا تھا اور ان کی ہدایت پر جمعیۃ نے اس قانون کو اتراکھنڈ ہائی کورٹ میں چیلنج پیش کیا ہے۔
ہندوستان جیسے عظیم جمہوری ملک میں سیکولر آئین کے وجود کے باوجود جس طرح سے یہ قانون لایا گیا، وہ جانبدارانہ، تفریق اور تعصب کی علامت ہے۔ مولانا مدنی نے مزید کہا کہ آئین کے کچھ التزامات کا حوالہ دے کر جس طرح سے قبائلیوں کو اس قانون سے الگ رکھا گیا ہے، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کی سماجی و مذہبی شناخت کو کمزور اور تباہ کرنے کے مقصد سے بنایا گیا ہے۔
مولانا ارشد مدنی کا کہنا ہے کہ آئین میں اقلیتوں کو خصوصی اختیارات بھی دیے گئے ہیں، لیکن ان کا دھیان نہیں رکھا گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں، آئین میں عام شہریوں کو بھی بنیادی حقوق فراہم کیے گئے ہیں۔ اس لیے یہ قانون شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ آج کی شروعاتی سماعت میں ہمارے وکیل نے جو نکات عدالت کے سامنے رکھے، وہ بہت ہی اطمینان بخش ہیں۔ کچھ انصاف پسند دوسرے طبقہ کے لوگوں نے بھی یو سی سی کے خلاف عرضیاں داخل کی ہیں، جن میں انھوں نے بھی تفریق، تعصب اور بنیادی حقوق کا تذکرہ کیا ہے۔ اس لیے ہمیں امید ہے کہ یکم اپریل کو عدالت میں اس پر نہ صرف مثبت بحث ہوگی بلکہ عدالت اس پر اسٹے بھی دے گی، کیونکہ ایسا قانون نہ صرف آئین کی بالادستی کو کمزور کرتا ہے، بلکہ آئین کے ذریعہ شہریوں کو دیے گئے بنیادی حقوق کو بھی گہرائی سے متاثر کرتا ہے۔