نئی دہلی: صدر جمہوریہ نے آج پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نئی حکومت کی آئندہ 5 سالہ مدت کے لئے روڈ میپ پیش کیا۔ خیال رہے کہ 18ویں لوک سبھا کا پہلا اجلاس جاری ہے اور تمام منتخت ارکان کی حلف برداری مکمل ہو چکی ہے۔ صدر دروپدی مرمو نے پارلیمنٹ میں اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے 18ویں لوک سبھا کے نو منتخب اراکین کو مبارکباد پیش کی۔ صدر جمہوریہ نے نو منتخب اسپیکر اوم برلا کو بھی مبارکباد دی اور انتخابات کو محفوظ طریقے سے کرانے پر الیکشن کمیشن کا شکریہ ادا کیا۔صدر جمہوریہ نے کہا کہ ’’عوام نے تیسری مرتبہ حکومت پر اعتماد ظاہر کیا اور میری حکومت تسلسل میں یقین رکھتی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا الیکشن تھا، تقریباً 64 کروڑ ووٹروں نے جوش اور ولولے کے ساتھ اپنا فرض ادا کیا ہے۔ اس بار بھی خواتین نے ووٹنگ میں جوش و خروش سے حصہ لیا۔ جموں و کشمیر سے بھی اس الیکشن کی ایک بہت ہی خوشگوار تصویر سامنے آئی ہے۔ وادی کشمیر میں ووٹنگ کا کئی دہائیوں کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ ہندوستان کی ترقی کی رفتار کو تیز کیا جائے گا۔ ترقی کا تسلسل ہماری ضمانت ہے اور آنے والے بجٹ میں تاریخی اقدامات نظر آئیں گے۔ کسانوں کا تذکرہ کرتے ہوئے صدر نے کہاکہ ’’20 ہزار کروڑ روپے کسانوں کو منتقل کیے گئے ہیں اور ہم کسانوں کو زیادہ سے زیادہ خود انحصار بنائیں گے۔ صدر دروپدی مرمو نے کہا، ’’چھ دہائیوں کے بعد ملک میں مکمل اکثریت کے ساتھ ایک مستحکم حکومت قائم ہوئی ہے۔ عوام نے تیسری بار اس حکومت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ عوام جانتے ہیں کہ ان کی خواہشات صرف یہی حکومت پوری کر سکتی ہے۔ 18ویں لوک سبھا کئی لحاظ سے ایک تاریخی لوک سبھا ہے۔ یہ لوک سبھا ’امرت کال‘ کے ابتدائی سالوں میں بنی تھی۔ یہ لوک سبھا ملک کے آئین کی منظوری کے 56 ویں سال کا بھی مشاہدہ کرے گی۔ یہ حکومت اپنے دور اقتدار کا پہلا بجٹ آئندہ اجلاسوں میں پیش کرنے جا رہی ہے۔ یہ بجٹ حکومت کی دوررس پالیسیوں اور مستقبل کے وژن کی موثر دستاویز ثابت ہوگا۔ اس بجٹ میں بڑے معاشی اور سماجی فیصلوں کے ساتھ ساتھ کئی تاریخی اقدامات بھی دیکھنے کو ملیں گے۔
صدر جمہوریہ نے اپنے خطاب میں پیپر لیک کا بھی ذکر گیا۔ صدر دروپدی مرمو نے کہا، ’’حکومت پیپر لیک کے واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات اور مجرموں کو سخت سزا دینے کے لیے پرعزم ہے۔ اس سے قبل بھی کئی ریاستوں میں پیپر لیک ہونے کے واقعات ہو چکے ہیں۔ جماعتی سیاست سے اوپر اٹھ کر اس معاملے پر ملک گیر ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔