نئی دہلی سے کانگریس رہنما راہل گاندھی کی پریس کانفرنس میں انتخابی نظام، ووٹر لسٹ اور انتخابی شفافیت پر سنگین سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ یہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں ہو ئی جب بہار سمیت کئی ریاستوں میں ووٹر لسٹوں کی نظرثانی جاری ہے اور اپوزیشن جماعتیں الیکشن کمیشن پر حکومتی دباؤ میں کام کرنے کا الزام لگا رہی ہیں۔راہل گاندھی نے پریس کانفرنس کی شروعات آئین کے اس بنیادی اصول سے کی، ’ایک فرد، ایک ووٹ‘۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اصول صرف کتابی بات نہیں، بلکہ جمہوریت کی بنیاد ہے لیکن جب جعلی ووٹرز شامل کیے جائیں، اصل ووٹرز کے نام غائب ہوں اور اپوزیشن کو ڈیٹا تک رسائی نہ ملے، تو جمہوری عمل بے معنی ہو جاتا ہے۔
انہوں نے مہاراشٹر کے انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں چالیس لاکھ مشتبہ ووٹرز موجود ہیں اور یہ صرف ایک ریاست کی بات نہیں۔ راہل گاندھی نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ آخر بی جے پی کو اینٹی انکمبنسی کا سامنا کیوں نہیں ہوتا؟ کیا میڈیا اور انتخابی نظام مل کر ’ماحول‘ تیار کر رہے ہیں؟
پریس کانفرنس میں راہل گاندھی نے صرف ووٹر لسٹ ہی نہیں بلکہ انتخابی عمل کے پورے نظام پر سنگین سوالات اٹھائے۔ انہوں نے آئین کے بنیادی اصول ’ایک فرد، ایک ووٹ‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب ہم انتخابات کی منصوبہ بندی کرتے ہیں، تو سب سے اہم بات یہ ہونی چاہیے کہ کیا یہ اصول محفوظ ہے؟ کیا صحیح لوگوں کو ووٹ ڈالنے دیا جا رہا ہے؟ کیا ووٹر لسٹ میں جعلی نام شامل کیے گئے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ عوام کے دلوں میں ایک عرصے سے شکوک پیدا ہو رہے ہیں۔ سب جمہوری نظاموں میں اینٹی انکمبنسی یعنی حکومت کے خلاف رائے عامہ کا رجحان نظر آتا ہے، لیکن حیرت کی بات ہے کہ بی جے پی واحد ایسی جماعت ہے جس پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
راہل گاندھی نے مزید نشاندہی کی کہ بی جے پی کی کامیابیاں اکثر حیران کن حد تک بڑی ہوتی ہیں اور یہ نتائج رائے عامہ اور ایگزٹ پولز سے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ انتخابات کے ارد گرد میڈیا کے ذریعے ایک منصوبہ بند ماحول تیار کیا جاتا ہے اور پورے انتخابی مرحلے ایسے ترتیب دیے جاتے ہیں کہ بی جے پی کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔ راہل گاندھی نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ جب الیکشن کمیشن خود شفافیت کے لیے ڈیٹا نہیں دیتا اور اپوزیشن کو جواب دینے سے انکار کرتا ہے، تو پھر جمہوری عمل پر یقین کیسے قائم رہے؟