نئی دہلی: جماعت اسلامی ہند نے اتر پردیش میں بڑھتی ہوئی پولیس بربریت اور مسلمانوں کو منظم طور پر نشانہ بنائے جانے پر اپنی سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جماعت اسلامی ہند کی ماہانہ پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خان نے کہا ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں اسے قانون نافذ کرنے والا عمل قطعی نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ قانون کی بالا دستی کی تباہی ہے۔ یو پی پولیس محافظ کے بجائے مظلوموں کی دشمن بن چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے چند ہفتوں میں اتر پردیش میں ظلم و جبر کی ایک نئی لہر دیکھی گئی ہے جس کی وجہ صرف اور صرف نبی کریم ﷺ سے محبت اور عقیدت کے پُرامن اظہار — “I Love Muhammad ﷺ” کے پوسٹرز اور بینرز کو بنایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عوامی جلوسوں پر قانونی ضابطوں کا نفاذ تو سمجھ میں آتا ہے لیکن ریاستی حکومت کا حد سے بڑھا ہوا غیر ضروری ردعمل جیسے مکانوں پر چھاپے، بے قصور لوگوں کی گرفتاریاں حتیٰ کہ نجی گھروں کے اندر لگے پوسٹروں کو بھی مٹانا، اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ مسلمانوں کی مذہبی شناخت اور عقیدت کو مجرمانہ رنگ دینے کی دانستہ کوشش کی جا رہی ہے۔
ملک معتصم خان نے کہا کہ 23 ستمبر 2025 تک ملک بھر میں 21 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں جن میں 1,324 مسلمانوں کو ملزم بنایا گیا ہے اور 38 گرفتاریاں ہو چکی ہیں۔ صرف بریلی میں ہی 10 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا یہ امن و قانون کے نفاذ کا نہیں بلکہ مسلمانوں کی اذیت رسانی کا معاملہ ہے۔ یہاں تک کہ کم عمر بچوں کو بھی صرف واٹس ایپ ڈی پی پر نبی ﷺ سے محبت کے اظہار کی وجہ سے حراست میں لیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلڈوزر، جو کبھی ترقی کی علامت سمجھا جاتا تھا، اب اجتماعی سزا اور سیاسی انتقام کا ہتھیار بن چکا ہے۔ اسے ایک غیر عدالتی آلہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ لوگوں کو خوفزدہ اور تباہ کیا جا سکے۔
ملک معتصم خان نے مزید کہا کہ این سی آر بی (2023) کے اعداد و شمار کے مطابق اتر پردیش میں خواتین کے خلاف سب سے زیادہ جرائم اور شیڈول کاسٹس کے خلاف 15,130 مظالم کے واقعات درج ہوئے ہیں۔ اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاستی مشینری عوام کو تحفظ دینے کے بجائے اقلیتوں کو دبانے کا آلہ بن چکی ہے۔ جماعت اسلامی ہند سیاسی بنیادوں پر درج تمام ایف آئی آرز کی واپسی، بے گناہ گرفتار شدگان کی رہائی اور پولیس کے خلاف عدالتی کارروائی کا مطالبہ کرتی ہے۔
ملک معتصم خان نے کہا کہ نبی ﷺ سے محبت کو جرم بنانا دراصل ہندوستان کے آئین اور اس کے اخلاقی ضمیر پر حملہ ہے۔ ہمیں مل کر آئینی نظم، مساوات اور انصاف کی بحالی کے لیے کھڑا ہونا ہوگا۔
ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (APCR) کے سکریٹری ندیم خان نے بہار میں ووٹر لسٹوں کی Special Intensive Revision (SIR) کے نام پر ہونے والی تازہ کارروائی پر گہری تشویش ظاہر کی، جو 24 جون تا 30 ستمبر 2025 تک چلائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ یہ عمل شفافیت کے فقدان اور وقت کی بیجا پابندیوں سے متاثر رہا ہے، جس کے باعث بڑے پیمانے پر رائے دہندگان کے حقِ رائے دہی کی محرومی کا اندیشہ پیدا ہوا ہے — بالخصوص ریاست کے مسلمان اور پسماندہ طبقات سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
سرکاری اعداد کے مطابق ابتدا میں 65 لاکھ نام ووٹر لسٹ سے حذف کر دیے گئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار نہایت پریشان کن ہیں اور اصلاح کے بعد بھی 47 لاکھ ووٹر کے نام حذف کر دئے گئے ہیں۔ ندیم خان نے کہا کہ خود کو ووٹر ثابت کرنے کی تمام تر ذمہ داری شہریوں پر ڈال دی گئی، جبکہ یہ کام ریاستی حکومت کا ہے۔
ان حالات میں غریب گھرانے تین ماہ میں مطلوبہ دستاویزات پیش نہ کر سکے اور اس طرح یہ انتظامی کارروائی لوگوں کے لئے ایک سزائی عمل بن گئی۔ انہوں نے کہا کہ مسلم آبادی والے اضلاع میں سب سے زیادہ نام حذف کیے گئے ہیں — کشن گنج (9.69%)، پورنیہ (8.41%)، کٹیہار (7.12%)، ارریہ (5.55%)، اور گوپال گنج (12.13%)۔
ندیم خان نے کہا کہ خاص طور پر مسلم اکثریتی اور مہاجرین والے سیمانچل خطے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ یہ منظر این آر سی اور سی اے اے کے المیے کی یادیں تازہ کرتا ہے۔ یہ دراصل خاموش طریقے سے آبادیاتی تبدیلی کا عمل ہے — یعنی صرف کاغذی کارروائی کے ذریعے لوگوں سے حقِ رائے دہی چھین لینا۔
انہوں نے کہا کہ ووٹر لسٹ سے نام خارج کرنے کے باعث عوام میں وسیع پیمانے پر بداعتمادی اور الجھن پھیل گئی ہے، کیونکہ متعدد درخواستیں غیر تسلیم شدہ رہ گئیں اور ووٹر لسٹ سے ہزاروں نام غائب ہو گئے ہیں۔ یہ عمل حق رائے دہی کے تحفظ کے بجائے اس کے انہدام کا باعث بن گیا ہے۔
ندیم خان نے مزید کہا کہ جب انتخابی فہرستوں کی ترمیم شہریت کی تصدیق سے مشابہ ہو جائے تو جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ جماعت اسلامی ہند نے الیکشن کمیشن آف انڈیا سے مطالبہ کیا کہ وہ نام حذف کرنے کے معیار کو واضح کرے، ضلع وار تفصیلی اعداد شائع کرے اور غلط طور پر حذف شدہ ناموں کو فوری طور پر بحال کرے۔
انہوں نے کہا کہ آزاد اور منصفانہ انتخابات جمہوریت کی بنیاد ہیں۔ ووٹ کا حق آسان ہونا چاہیے، اسے بیوروکریسی کے جال میں نہیں پھنسانا چاہیے۔
جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے اسرائیل کے ہاتھوں غزہ میں جاری نسل کشی اور امدادی قافلوں، صحافیوں اور امن کارکنوں پر مسلح حملوں کی شدید مذمت کی۔
انہوں نے کہا کہ غیر مسلح امدادی جہازوں پر حملہ کر کے اسرائیل نے انسانیت، قانون اور اخلاقیات کی تمام سرحدیں پار کر لی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو سالوں سے غزہ پر مسلسل بمباری ہو رہی ہے، دسیوں ہزار افراد شہید، لاکھوں بے گھر اور پورا علاقہ کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے۔
یہ دفاع نہیں بلکہ محصور آبادی کی منظم تباہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسپتال، اسکول اور پناہ گزین کیمپ سب نشانہ بن چکے ہیں حتیٰ کہ انسانی امداد کے قافلے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ یہ سب عالمی خاموشی اور طاقتور ممالک کی شراکت داری کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دوحہ میں حماس رہنماؤں پر اسرائیلی حملہ اسرائیل کی نئی جارحانہ پالیسی کی عکاسی کرتا ہے، جو خودمختار ریاستوں کی حدود اور سفارتی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔
ایک طرف مذاکرات، دوسری طرف قتل و غارت — یہ دوغلا پن امن کے ہر تصور کو تباہ کر رہا ہے۔
جماعت اسلامی ہند نے فوری اور غیر مشروط فائر بندی (Ceasefire)، اسرائیل پر بین الاقوامی پابندیاں، اسرائیلی قیادت کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) میں مقدمات اور غزہ تک بلا رکاوٹ انسانی امداد کی فراہمی کا مطالبہ کیا۔
پروفیسر سلیم انجینئر نے حکومتِ ہند سے اپیل کی کہ وہ اقوام متحدہ میں ایک اصولی موقف اختیار کرے اور ہندوستان کی تاریخی فلسطینی حمایت کو اپنی خارجہ پالیسی کا حصہ بنائے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین کی جدوجہد دراصل انسانیت کے ضمیر کا امتحان ہے۔ تاریخ یاد رکھے گی کہ کون انصاف کے ساتھ کھڑا ہوا اور کون نسل کشی کے وقت خاموش رہا۔