کانگریس رہنما اورقائد حزب اختلاف راہل گاندھی نےٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ شیئر کرتےہوئےاپنی فیس بک پوسٹ میں لکھا ہے کہ مہاراشٹر میں شہری علاقوں کے سب سے امیر 5 فیصد لوگوں کو بھی اگر ممبئی میں مکان خریدنا ہو تو انہیں اپنی آمدنی کا 30 فیصد بچاتے ہوئے 109 سال لگ سکتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار نیشنل ہاؤسنگ بورڈ اور گھریلو آمدنی کے ڈیٹا کے موازنے سے سامنے آئے ہیں۔ دہلی، بنگلورو اور گروگرام جیسے دیگر بڑے شہروں میں بھی یہ مدت 35 سے 64 سال تک بنتی ہے، جو رہائش کی بڑھتی ہوئی لاگت اور عام شہری کی محدود قوتِ خرید کو واضح کرتی ہے۔
راہل گاندھی نے اپنی پوسٹ میں لکھا، ’’ہاں، آپ نے صحیح پڑھا، اور اگر یقین نہیں ہو رہا تو دہرا دیتا ہوں، ممبئی میں گھر لینے کے لیے ہندوستان کے سب سے امیر 5 فیصد لوگوں کو بھی 109 سال تک اپنی آمدنی کا 30 فیصد بچانا پڑے گا!‘‘ ان کا کہنا تھا کہ یہی حال زیادہ تر بڑے شہروں کا ہے، جہاں لوگ مواقع اور کامیابی کی تلاش میں ایڑیاں رگڑتے ہیں، مگر بچت کہاں سے آئے گی؟ انہوں نے لکھا کہ غریب اور متوسط طبقے کی وراثت دولت نہیں، بلکہ ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ وہ ذمہ داریاں جن میں بچوں کی مہنگی تعلیم، مہنگے علاج کی فکر، والدین کی خدمت اور خاندان کے لیے ایک چھوٹی سی گاڑی شامل ہے۔
راہل گاندھی کے مطابق اس سب کے باوجود ہر دل میں ایک خواب ہوتا ہے، ایک دن ایک اپنا گھر ہوگا لیکن اگر وہ ’ایک دن‘ امیروں کے لیے بھی 109 سال دور ہو، تو سمجھ لینا چاہیے کہ غریبوں سے تو خواب دیکھنے کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ہر خاندان کو ایک پُرسکون چہار دیواری اور سر پر چھت کی ضرورت ہوتی ہے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کی قیمت آج اتنی بڑھ چکی ہے کہ انسان کی پوری زندگی کی محنت اور بچت بھی اس کے لیے کافی نہیں رہ گئی۔
پوسٹ کے آخر میں راہل گاندھی نے عوام سے اپیل کی کہ جب کوئی آپ کو مجموعی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی کے اعداد و شمار سنائے، تو اسے اپنی گھریلو بجٹ کی سچائی دکھائیں اور پوچھیں کہ یہ معیشت آخر کس کے لیے ہے؟ ان کا کہنا ہے کہ آج کے ہندوستان میں ترقی کے تمام دعوے بے معنی لگتے ہیں جب ملک کا اوسط شہری ایک چھت کا خواب پورا کرنے سے بھی محروم ہو۔