بی جے پی حکومت کی ٹیکس دہشت گردی کا سامنا چھوٹے، درمیانے اور خردہ تاجروں کو کرنا پڑ رہا ہے۔ جی ایس ٹی کے سلیب کی ساخت نہایت پیچیدہ ہے، جس کی وجہ سے تاجروں کو بے حد مشکلات کا سامنا ہے۔ ملک میں ملازمت پیشہ افراد، متوسط طبقے اور عوام سے سب سے زیادہ جی ایس ٹی وصول کیا جا رہا ہے، جبکہ مٹھی بھر امیروں کو ٹیکس کی چھوٹ دی جا رہی ہے۔ اس صورتحال کو بدلنے کے لیے مرکزی حکومت آئندہ بجٹ میں جی ایس ٹی میں ترمیم کرتے ہوئے جی ایس ٹی 2.0 لائے۔ یہ مطالبہ کانگریس کے سینئر لیڈر اور آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے جنرل سیکریٹری سچن پائلٹ نے کیا ہے۔
گاندھی بھون میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سچن پائلٹ نے کہا کہ یکم فروری 2025 کو بی جے پی حکومت مرکزی بجٹ پیش کرے گی۔ اس بجٹ میں عوامی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے جی ایس ٹی جیسے پیچیدہ اور دہشت زدہ ٹیکس نظام میں اصلاحات کرنی ہوں گی۔ انہوں نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ مالی سال 2021-22 میں جی ایس ٹی کا تقریباً دو تہائی حصہ ملک کی نچلی 64 فیصد آبادی سے وصول کیا گیا، جبکہ امیر ترین 10 فیصد لوگوں سے محض 3 فیصد جی ایس ٹی حاصل ہوا۔ یہ غریبوں پر لادا گیا ٹیکس ہے، جو وقت کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔
سچن پائلٹ نے کہا کہ ضروری خدمات جیسے صحت بیمہ پر بچوں اور بزرگ شہریوں کے لیے جی ایس ٹی کی شرح 18 فیصد ہے۔ یہاں تک کہ پاپ کارن پر بھی تین مختلف اقسام کے جی ایس ٹی لاگو ہیں۔ دوسری طرف 2019 میں مودی حکومت نے کارپوریٹ ٹیکس میں 2 لاکھ کروڑ روپے کی کٹوتی کی، جس سے بڑے کاروباریوں کو فائدہ پہنچا۔ سچن پائلٹ نے مزید کہا کہ جی ایس ٹی کا تصور سب سے پہلے ڈاکٹر منموہن سنگھ نے پیش کیا تھا، جس کی بی جے پی نے سخت مخالفت کی تھی۔ یہی حال آدھار کارڈ، ڈی بی ٹی اور دیگر کانگریسی پالیسیوں کا ہوا۔ بی جے پی نے اقتدار میں آ کر انہی پالیسیوں کو اپنایا۔ جی ایس ٹی کے نفاذ کے موقع پر آدھی رات کو بڑے پیمانے پر تقریب منعقد کرکے بی جے پی نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ کوئی تاریخی کام کیا جا رہا ہے۔