نئی دہلی : آج لوک سبھا میں تحریک عدم اعتماد پر بحث کا آغاز ہوا جس کی شروعات کانگریس لیڈر گورو گگوئی نے کی۔ اس کے بعد اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے ٹی آر بالو، سوگت رائے، سپریا سولے، ڈمپل یادو، اروند گنپت ساونت، منیش تیواری نے مرکزی حکومت کے خلاف اپنی بات رکھی۔ دوسری طرف برسراقتدار طبقہ کی جانب سے کرن رجیجو، نشی کانت دوبے اور شری کانت شندے جیسے لوک سبھا اراکین نے اپوزیشن پارٹیوں کے خلاف حملہ آور رخ اختیار کیا۔ تحریک عدم اعتماد پر بحث آج پہلے دن ختم ہو گئی ہے، لیکن یہ بحث 10 اگست تک جاری رہنے والی ہے۔
کانگریس کے گورو گگوئی نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ یہ تحریک عدم اعتماد ہم منی پور کے لیے لے کر آئے ہیں۔ منی پور کا نوجوان انصاف مانگتا ہے۔ منی پور کی بیٹی انصاف مانگتی ہے۔ منی پور کا کسان انصاف مانگتا ہے۔ اگر منی پور متاثر ہوا ہے تو ہندوستان متاثر ہوا ہے۔ ہم صرف منی پور کی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ ہندوستان کی بات کر رہے ہیں۔ ہماری امید تھی کہ ایک پیغام جائے کہ اس تکلیف کی گھڑی میں پورا ملک منی پور کے ساتھ ہے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ وزیر اعظم نے ایک ’مون ورَت‘ لیا۔ نہ لوک سبھا میں کچھ بولیں گے نہ راجیہ سبھا میں کچھ بولیں گے۔ اس لیے یہ نوبت آن پڑی ہے کہ ہم تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ وزیر اعظم مودی جی کا مون ورَت توڑنا چاہتے ہیں۔
بی جے پی کے نشی کانت دوبےنے کہا کہ 83 کے الیکشن میں کتنے فیصد لوگوں نے آسام میں ووٹ دیا تھا۔ کتنے لوگ مارے گئے تھے۔ آپ نے میزورم میں 7 فیصد ووٹ کی بنیاد پر حکومت چلانے دے دی۔ پورے ملک کو جاننا چاہیے۔ یہ تحریک عدم اعتماد اس شخص کے خلاف لایا جا رہا ہے جس نے لوگوں کو بیت الخلا دیا، پینے کا پانی دیا۔ جب دروپدی کا چیرہرن ہو رہا تھا تب سبھی خاموشی اختیار کیے ہوئے تھے۔ جس طرح نہ دھرتراشٹر بچا، نہ یدھشٹر بچے، اسی طرح کوئی بھی نہیں بچے گا۔
ڈی ایم کے کے ٹی آر بالونے کہا کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں دن بہ دن بڑھتی ہی جا رہی ہیں، یہ ٹھیک نہیں ہے۔ یو پی اے کے وقت پٹرول محض 60 اور 70 روپے کا تھا۔ اس وقت کروڈ آئل 80-70 ڈالر فی بیرل تھا۔ آج کروڈ آئل کی قیمتیں بھی کم ہیں اس کے بعد بھی پٹرول و ڈیزل کی قیمت آسمان پر ہے۔
ٹی ایم سی رکن سوگت رائے کا خیال تھا کہ جو بھی ملک سے محبت کرتا ہے وہ مودی کو پسند نہیں کرتا۔ میں نشی کانت دوبے کی باتوں کا جواب نہیں دینا چاہتا۔ وہ ایسے ادارہ سے آتے ہیں جس پر گاندھی جی کے قتل کے بعد پابندی لگا دی گئی تھی۔ اس سے پہلے انوراگ ٹھاکر نے کہا تھا گولی مارو… میناکشی لیکھی نے کہا تھا کہ ای ڈی کا چھاپہ پڑ جائے گا۔اس حکومت کے پاس دل نہیں ہے۔ صرف ایک ہی نمائندہ وفد منی پور گیا تھا۔ میرے دوست گورو گگوئی نے منی پور کے حالات کو بخوبی پیش کیا۔ اب تک 150 لوگ مارے جا چکے ہیں۔ کئی عصمت دریاں ہوئیں ہیں۔ 300 سے زیادہ ریلیف کیمپ بنے ہوئے ہیں۔ نشی کانت نے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا جس میں دو کوکی خواتین کو بے لباس کر کے سڑکوں پر گھمایا گیا۔ کیا واقعی ہم ایک سول سوسائٹی میں رہ رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے اب تک منی پور کا دورہ نہیں کیا ہے۔ آج منی پور میں مختلف نسلیں ایک دوسرے پر حملہ کر رہی ہیں۔ وہ اسلحوں کے ساتھ اس کا جواب دے رہی ہیں۔ بیرون ملکی اسلحوں کا استعمال ہو رہا ہے۔ یہ سب ڈرگز کے ذریعہ کمائے گئے پیسوں سے ہو رہا ہے۔
این سی پی کیسپریا سولے نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ جب میں (مرکزی) حکومت کے بارے میں سوچتی ہوں، میرے دماغ میں جو خیال آتا ہے، وہ ہے گھمنڈ۔ حکومت سے ہمیشہ گھمنڈ جھلکتا ہے۔ یہ بی جے پی والے ہمیشہ بات کرتے ہیں نو رتن، 9 سال۔ لیکن ان 9 سالوں میں بی جے پی نے کیا کیا؟ صرف ریاستی حکومتیں گرائیں۔ مہنگائی بڑھائی۔ جملہ دیا۔ گڈکری جی نے تو یہ تک کہہ دیا کہ جملہ ان کے گلے کی ہڈی ہو گیا ہے۔ بی جے پی حکومت ویسے تو بڑے بڑے دعوے کرتی ہے، لیکن گزشتہ 9 سالوں میں بی جے پی نے بس 9 ریاستوں کی حکومتیں گرائیں ہیں۔ ان ریاستوں میں اروناچل، منی پور، میگھالیہ، اتراکھنڈ، کرناٹک، گوا، پڈوچیری، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر بھی شامل ہے۔ مہاراشٹر کی حکومت دو بار گرائی گئی ہے۔
سماجوادی پارٹی کی ڈمپل یادو نے کہا کہ برسراقتدار طبقہ کے لوگ کہہ رہے تھے کہ ہمیں راجستھان پر بحث کرنی چاہیے، جہاں خواتین کے ساتھ بہیمانہ جرائم ہو رہے ہیں۔ گجرات کی بحث کرنی چاہیے، چھتیس گڑھ کی بحث کرنی چاہیے۔ اگر ایسا ہے تو مدھیہ پردیش اور اتر پردیش کی بھی ضرور بحث ہونی چاہیے۔ کیونکہ این سی آر بی کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہر تین گھنٹے میں اتر پردیش کے اندر ایک خاتون کا جسمانی استحصال ہوتا ہے۔ بہرحال، منی پور تشدد کی دنیا بھر میں مذمت ہوئی، لیکن یہ گھمنڈ میں ڈوبی ہوئی حکومت ہے۔
کانگریس کے منیش تیواری نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد منی پور کو توجہ میں رکھتے ہوئے ایوان میں رکھا گیا ہے۔ جب جمہوریہ (ہندوستان) کی تعمیر ہو رہی تھی تو سرحدی ریاستوں کے لیے الگ التزامات کیے گئے تھے۔ لیکن جب شمال مشرق کی کسی ریاست میں کوئی تشدد ہوتی ہے تو اس کا اثر صرف اس ریاست پر نہیں بلکہ مکمل شمال مشرق پر پڑتا ہے۔ 4 سال پہلے جب جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کو ختم کیا گیا تو اب تک وہاں انتخاب نہیں ہوئے۔ حکومت کو دھیان رکھنا چاہیے کہ جب آپ آئین کے ڈھانچے میں تبدیلی کرتے ہیں تو اس کا اثر کہاں پڑتا ہے۔