کانگریس نے اپنے ’ایکس‘ ہینڈل پر پارٹی ترجمان سپریا شرینیت کی ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں وہ نہ صرف مرکزی و بی جے پی کی قیادت والی ریاستی حکومتوں کو ہدف تنقید بنا رہی ہیں، بلکہ کئی چبھتے ہوئے سوالات بھی پوچھ رہی ہیں۔ وہ کہتی نظر آ رہی ہیں کہ ’’مہاراشٹر سے لے کر اتر پردیش اور چھتیس گڑھ تک، نظامِ قانون پوری طرح سے دم توڑ چکی ہے۔ مہاراشٹر میں دن دہاڑے جیل میں قید مجرم ایک سیاسی لیڈر، جو کہ برسراقتدار پارٹی سے جڑا ہوا تھا، کا قتل کرا دیتا ہے۔ اتر پردیش میں مورتی وِسرجن کے جلوس کے دوران تشدد بھڑک اٹھتا ہے۔ چھتیس گڑھ میں عوام ایس ڈی ایم کو مارنے کے لیے سرعام دوڑاتی ہے۔ یہ جنگل راج نہیں تو کیا ہے؟
سپریا شرینیت یہ سوال اٹھاتی ہیں کہ آخر اس طرح کا ماحول کیوں پیدا ہو رہا ہے؟ وہ ویڈیو میں پوچھتی ہیں کہ ’’سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ نفرت کی آگ کس نے اور کیوں پھیلائی؟ یہ بچے جو فرقہ واریت کی بَلی چڑھ رہے ہیں، ان کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا پولیس انتظامیہ اتنا ناکارہ اور نامرد ہو گیا ہے کہ اس کی ناک کے نیچے تشدد و قتل ہو جاتا ہے اور وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہوئی ہے؟ یا کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ پولیس حاکموں کے اشارے پر فرقہ وارانہ فسادات کو فروغ دے رہی ہے؟
کانگریس ترجمان نے بی جے پی کے ساتھ ساتھ میڈیا کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’میڈیا کا تو کیا ہی کہنا؟ ان گودی گدھوں کے منھ سے مہاراشٹر سے لے کر اتر پردیش اور چھتیس گڑھ کے لیے جو ایک لفظ نہیں نکلا وہ ہے ’جنگل راج‘۔ ٹی وی پر پولیس انتظامیہ کی ذمہ داری طے کی گئی، لیکن مجال ہے کہ اسکرین پر یوگی آدتیہ ناتھ، ایکناتھ شندے اور وشنو دیو سائے کی تصویر تک دکھائی گئی ہو… ان کا استعفیٰ مانگنا تو بہت دور کی بات ہے۔‘‘ ساتھ ہی انھوں نے عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’’نفرت میں جھلسنے سے پہلے ایک بار سوچیے گا کہ یہ لیڈران جو آپ کے بچوں کو مذہب کا خود ساختہ محافظ بنا کر ان کے ہاتھوں میں طمنچے، تلواریں تھما رہے ہیں، ان کے خود کے بچے امریکہ، یوروپ کی بڑی بڑی یونیورسٹی میں پڑھ کر موٹا مال کما رہے ہیں۔