سرینگر، جموں اینڈ کشمیر ہائیکورٹ نے وضاحت کی ہے کہ وقف ایکٹ 1995ء کے تحت اگر کوئی وقف ٹربیونل کی تشکیل نہیں ہوئی ہے تو سیول کورٹس کے پاس وقف املاک سے متعلق تنازعات کی یکسوئی کا اختیار برقرار ہے۔ وقف پراپرٹی سے متعلق ایک دیوانی مقدمہ کو سماعت کیلئے قبول کرنے کے جواز کو چیلنج کرتے ہوئے ایک مرافعہ داخل کیا گیا تھا۔ جسٹس سنجے دھار کی بنچ نے کہا کہ وقف ایکٹ کا سیکشن 85 جو دیوانی عدالتوں کا دائرۂ کار وقف املاک سے متعلق امور میں موقوف کردیتا ہے، اس کا اطلاق یہی ایکٹ کے سیکشن 83 کے تحت تشکیل شدنی وقف ٹربیونل نہ ہونے پر نہیں کیا جاسکتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ وقف ایکٹ کی دفعہ 85 میں مصرحہ گنجائشوں کو لاگو کرنے کیلئے وقف قانون ہی کی دفعہ 83 کے معاملے میں ٹربیونل کی تشکیل پیشگی شرط ہے۔ اگر کوئی ٹربیونل تشکیل نہیں دیا گیا ہے تو وقف جائیداد سے متعلق کوئی تنازعہ یا معاملہ کو طے کرنے کیلئے کوئی فورم نہیں رہے گا۔ درخواست گزار کی طرف سے ایڈوکیٹ آر احمد بابا نے عدالت سے رجوع ہوتے ہوئے وقف جائیداد سے متعلق ایک سیول کیس کو سماعت کیلئے قبول کرنے ٹرائل کورٹ کے فیصلہ کے جواز کو چیلنج کیا تھا۔ وہ سیول پروسیجر کوڈ کے آرڈر 7 قاعدہ 11 پر منحصر تھے اور سماعت کو اس بنیاد پر خارج کرانا چاہا کہ سیول کورٹس کا وقف ایکٹ کے تحت دائرۂ عمل نہیں ہے۔