اترپردیش کے ضلع مرادآباد میں منڈی کمیٹی کی سرکاری زمین پر ہوئے مبینہ ناجائز قبضوں کو ہٹانے کے لیے انتظامیہ نے بدھ کو بلڈوزر ایکشن کی منصوبہ بندی کی تھی لیکن جیسے ہی کارروائی شروع ہوئی، شہر کے بی جے پی ایم ایل اے رتیش گپتا موقع پر پہنچ گئے اور حامیوں کے ساتھ دھرنے پر بیٹھ گئے۔ ان کے احتجاج کے بعد حکام کو کارروائی درمیان میں روکنی پڑی۔
ذرائع کے مطابق، منڈی کمیٹی میں برسوں سے غیر قانونی تعمیرات جاری تھیں۔ یہاں کل 273 دکانیں الاٹ کی گئی ہیں، جن میں سے 15 سے 20 دکانوں پر ناجائز قبضے کر کے پکے یا عارضی ڈھانچے کھڑے کر لیے گئے تھے۔ کمیٹی کی انچارج سکریٹری مہادیوی کے مطابق، انھوں نے بالا حکام کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے یہ کارروائی شروع کی تھی اور ان کی نیت کسی خاص سیاسی جماعت کو نشانہ بنانے کی نہیں تھی۔
جب بی جے پی ایم ایل اے دھرنے پر بیٹھے تو سٹی مجسٹریٹ نے انھیں کئی بار منانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں مانے۔ بالآخر ایک سینئر افسر کے فون پر ایم ایل اے نے دھرنا ختم کیا، تاہم اس دوران کارروائی ملتوی ہو گئی۔ سکریٹری مہادےوی کا کہنا ہے کہ اب آگے کی کارروائی حکام کی نئی ہدایات پر منحصر ہے۔
منڈی کمیٹی کی زمین 44 ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہے، جہاں موقع پر تقریباً 550 سے زیادہ پکے اور کچے تعمیرات پائے گئے ہیں۔ اندازہ ہے کہ ان میں سے 250 سے زائد تعمیرات غیر قانونی ہیں۔ ان میں کچھ لوگوں نے ٹن کی چھت ڈال کر قبضہ کیا ہے، تو کچھ نے دو منزلہ عمارتیں بھی کھڑی کر لی ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ دنوں بھی کچھ عارضی تعمیرات گرائی گئی تھیں، جبکہ بدھ کے روز باقی تجاوزات کے خلاف بلڈوزر ایکشن کی شروعات ہوئی۔ اس دوران بی جے پی کے ایک مقامی لیڈر اور منڈل نائب صدر ڈال چند سینی کے مبینہ غیر قانونی تعمیر کو بھی نشانہ بنایا گیا، جس پر ایم ایل اے رتیش گپتا احتجاج کرتے ہوئے دھرنے پر بیٹھ گئے۔
ایم ایل اے گپتا نے الزام لگایا کہ منڈی انتظامیہ نے شفاف طریقے سے الاٹمنٹ نہیں کیے اور زیادہ تر دکانیں بعد میں غیر قانونی طور پر الاٹ کر دی گئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سنہ 1980 میں 44 ایکڑ زمین پر بنی اس منڈی میں ابتدائی طور پر 258 دکانوں کی منظوری دی گئی تھی، لیکن بعد میں یہ تعداد 600 تک پہنچ گئی، جس سے بدنظمی پیدا ہوئی۔
منڈی کمیٹی میں ناجائز قبضوں کا مسئلہ نیا نہیں ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اقتدار میں رہنے والی جماعت کے لیڈر اکثر ایسی زمینوں پر قبضہ کرتے رہے ہیں، اور موجودہ وقت میں زیادہ تر قبضے بی جے پی سے وابستہ افراد کے بتائے جاتے ہیں۔ تاہم، دھرنے کے بعد یہ سوال ایک بار پھر اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ کیا قانون سب کے لیے برابر ہے یا نہیں؟