ڈھاکہ: جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش میں اتوار کو عام انتخات کے سلسلے میں کروڑوں ووٹر حکمران جماعت کے امیدوارو کے لئے ووٹ ڈالیں گے۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد پانچویں بار عوام کے سامنے ووٹ کے لئے موجود ہوں گی۔ اپوزیشن کی طرف سے انتخابی بائیکاٹ نے اس بار بھی حسینہ واجد کی وزارت عظمی کی ضمانت کا موقع فراہم کر دیا ہے۔بنگلہ دیشی اپوزیشن جماعتیں جنوبی ایشیا کے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں زیادہ انتقامی کارراوائیوں کی زد میں چلی آرہی ہیں۔ مخالفین کی وسیع پیمانے پر گرفتاریوں سے لے کر انہیں پھانسی کی سزائیں دیتے چلے جانا بنگلہ دیش کی عمومی روایت بن گئی ہے۔ اس وجہ سے اپوزیشن جماعتیں احتجاج کے طور پر انتخابات کا بائیکاٹ کر رہی ہیں جس نے حسینہ واجد کے اقتدار کی راہ ایک بار پھر ہموار جبکہ ملک میں جمہوریت کا راستہ مزید مشکل بنا دیا ہے۔76 سالہ حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ کے مقابل بی این پی ہے جس کی قیادت خالدہ ضیا کرتی ہیں۔ دنیا کے آٹھویں گنجان آباد ملک بنگلہ دیش میں سیاست میں ان دو خواتین کا کردار کلیدی ہے۔حسینہ واجد ملک کے بانی مجیب الرحمان شیخ کی بیٹی ہیں جبکہ خالدہ ضیا سابق فوجی صدر ضیاء الرحمن کی بیوہ ہیں۔ حسینہ واجد 2009 میں انتخابی کامیابی کے بعد مسلسل مضبوط موقف رکھے ہوئے ہیں۔ ان پر اپوزیشن کو کچلنے سے و انتخابی دھاندلی کے الزامات بھی ہیں۔
حسینہ کے دور میں ملکی معیشت میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ گارمنٹس کی برآمدات کی وجہ سے کافی خوشحالی آئی جبکہ بنگلہ دیشی برانڈز کو دنیا بھر میں شہرت بھی ملی۔ لیکن مالی حالت بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی صورت حال دگرگوں ہوتی چلی گئی ہے۔سیکیورٹی فورسز نے ماورائے عدالت شہریوں اور بالخصوص سیاسی مخالفین کی ہلاکتوں کا بازار گرم رکھا ہے۔ شہری اور صحافتی آزادیوں کی بد ترین صورت حال پیدا کئے رکھی ہے۔اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف بے رحمانہ کریک ڈاؤن حسینہ کی حکومت کی پہچان بنتے گئے۔حکومت نے 25 ہزار کے قریب سیاسی رہنماؤں اور کآرکنوں جیلوں میں بند کر رکھا ہے۔ اپنے مخالفین کو ختم کر دینے کی اس حکمت عملی کے باعث آج انتخابی مرحلے پر بھی عوامی لیگ کے مقابل کوئی موثر اپوزیشن کھڑی نہیں۔اپوزیشن کی نمائندگی اس قدر کمزور ہوچکی ہے کہ ہے۔ پارلیمان بھی یک جماعتی ماحول کی آئینہ دار ہے۔اتوار کے روز ہونیوالی پولنگ بھی اسی طرح کے نتائج دے سکے گی۔