نئی دہلی : منی پور تشدد معاملے پر مودی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر بولتے ہوئے کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نےکہا کہ وزیر اعظم کسی کی نہیں سنتے، محض دو کی سنتے ہیں۔ ایک امت شاہ کی اور دوسرے اڈانی کی سنتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ راون بھی دو لوگوں کی ہی سنتا تھا، ایک میگھ ناد اور دوسرا کمبھ کرن۔ اور سری لنکا کو بھگوان ہنومان نے نہیں بلکہ راون کے تکبر نے جلایا تھا۔
آج لوک سبھا میں اپنی بات شروع کرتے ہوئے راہل گاندھی نے سب سے پہلے اسپیکر کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ان کی لوک سبھا کی رکنیت بحال کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ ان سے معافی مانگنا چاہتے ہیں کہ پچھلی مرتبہ انہوں نے زور سے بولا جس سے آپ کو اور آپ کے رہنما کو تکلیف ہوئی۔ (برسراقتدار طبقہ کو) پریشانی ہوئی کیونکہ میں نے اڈانی پر بولا تھا۔ راہل گاندھی نے مزید کہا کہ ’’بی جے پی کے لوگوں کو آج ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میری تقریر کا موضوع اڈانی جی نہیں ہیں کیونکہ میری تقریر آج دوسری سمت میں جا رہی ہے۔‘‘راہل گاندھی نے کہا کہ ’’رومی نے کہا تھا جو لفظ دل سے آتے ہیں وہ دل میں جاتے ہیں، اس لئے آج میں دماغ سے نہیں دل سے بولنے جا رہا ہوں۔ میں آپ لوگوں پر بہت زیادہ حملہ نہیں کروں گا۔ ایک دو گولے ضرور ماروں گا، لیکن زیادہ نہیں۔
راہل نے بھارت جوڑو یاترا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’’130 دن کے لئے ہندوستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک گیا اور میں اکیلا نہیں تھا۔ میں سمندر کے ساحل سے کشمیر کی برفیلی پہاڑیوں تک گیا اور یہ یاترا ابھی جاری ہے۔ بہت لوگوں نے پوچھا کہ راہل تم کیوں چل رہے ہو! جب وہ پوچھتے تھے تو شروعات میں میرے منہ سے الفاظ نہیں نکلتے تھے۔ شاید اس وقت مجھے ہی گہرائی سے نہیں معلوم تھا۔ کچھ دنووں میں مجھے سمجھ آنے لگا، جس چیز کے لئے میں مرنے کے لئے تیار ہوں، مودی جی کی جیل جانے کے لئے تیار ہوں وہ یہ ہے۔ میں سالوں سے آٹھ دس کلومیٹر دوڑتا تھا تو مجھے لگا کہ اس میں (بھارت جوڑو یاترا میں) کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن جب تکلیف ہوئی تو غرور ختم ہو گیا۔ جب بھی یہ ڈر بڑھتا تھا تو کوئی نہ کوئی مجھے طاقت دیتا تھا۔ ایک چھوٹی سی لڑکی نے خط دیا کہ وہ اس کے ساتھ چل رہی ہے۔ کسان کیا ہزاروں لوگ آئے، اور پھر میں بول ہی نہیں پایا کیونکہ وہ لوگ اتنا بولتے تھے۔
راہل گاندھی نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’’پھر ایک کسان آیا اور کسان نے ہاتھ میں روئی لی ہوئی تھی۔ میری آنکھ میں دیکھ کر اس نے روئی کا بنڈل دیا اور کہا- یہی بچا ہے میرے کھیت کا اور کچھ نہیں بچا ہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کو بیمہ کا پیسہ ملا؟ جس کا کسان نے نفی میں جواب دیا اور کہا کہ بڑے سرمایہ داروں نے مجھ سے چھین لیا۔ جو اس کے دل میں بات تھی وہ میرے دل میں آئی۔ اس کی شرم اور اس کی بھوک مجھے سمجھ آئی۔ اس کے بعد یاترا بالکل بدل گئی۔ مجھے صرف وہ سنائی دیتا تھا جو سامنے والا بولتا تھا، باقی کچھ نہیں سنائی دیتا تھا۔ سب لوگ اس ملک کے بارے میں بہت کچھ کہتے ہیں لیکن یہ ملک صرف لوگوں کی آواز ہے اور ہمیں اگر اس آواز کو سننا ہے تو ہمیں غرور، نفرت اور اپنے خوابوں کو ترک کرنا ہوگا۔